تاثیر 20 دسمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس 20 دسمبر، 2024 کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ یہ اجلاس سوموار، 25 نومبر 2024 کو شروع ہوا تھا۔ لوک سبھا کی 20 اور راجیہ سبھا کی 19 نشستوں کے ساتھ اجلاس 26 دن تک جاری رہا۔حالانکہ اجلاس کا بیشتر حصہ ہنگامہ آرائی سے متاثر رہا۔ دونوں ایوانوں میں آئین کے نفاذ کے 75 سال کی تکمیل سے متعلق بحث کے علاوہ پورے اجلاس میں کوئی معنی خیز بحث نہیں ہو سکی ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اسی آئین پر بحث کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی تقریر کے ایک حصے پر اتنا ہنگامہ ہوا کہ پارلیمنٹ کا احاطہ اکھاڑے کی طرح نظر آنے لگا۔ ارکان پارلیمنٹ کا احتجاج ہاتھا پائی تک جا پہنچا۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں نے ایک دوسرے پر جمہوریت کے وقار کو پامال کرنے کا الزام لگایا۔ڈاکٹر بھیم راؤ امیڈکر کے سلسلے میںوزیر داخلہ امت شاہ کے تبصرے کو کانگریس نے مبینہ طور پر توہین آمیز قرار دیا۔ساتھ ہی امت شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے لگی۔ بات اب سنسد سے نکل کر سڑک تک آچکی ہے۔
کانگریس نے امت شاہ کے تبصرے کے خلاف 24 دسمبر (منگل) کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس نے امبیڈکر سمان ہفتہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ پروگرام کے مطابق پارٹی کے تمام ممبران پارلیمنٹ اور سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے ممبران 22 اور 23 دسمبر کو امیت شاہ کے ریمارکس پر پریس کانفرنس بھی کریں گے۔ کانگریس جنرل سکریٹری (تنظیم) کے سی وینوگوپال کے دستخط سے تمام لیڈروں کو ایک سرکلر جاری کیا گیا ہے۔ اس سرکلر کے تحت ملک کے ہر ضلع میں 24 دسمبر کو ملک بھر میں کانگریس کارکنان بابا صاحب امبیڈکر سمان مورچہ نکالیں گے۔ ضلع کلکٹر کے توسط سے صدر جمہوریہ ہند کو ایک میمورنڈم پیش کریں گے، جس میں امت شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اس سے پہلے پریس کانفرنس میں ایم پی اور سی ڈبلیو سی ممبران اپنے اپنے حلقوں میں صحافیوں سے خطاب کریں گے۔ سرکلر کے مطابق 26 اور 27 دسمبر کو کرناٹک کے بیلگاوی ضلع ہیڈ کوارٹر میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کا ایک توسیعی اجلاس اور ایک میگا ریلی کا اہتمام کیا جائے گا۔وہاں کانگریس کارکنان ڈاکٹر امبیڈکر اور ان کے نظریات کے تئیں اپنی وابستگی کا اعادہ کریں گے۔دوسری جانب امت شاہ نے کانگریس کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے اور کانگریس کو دلت مخالف اور امبیڈکر مخالف قرار دیا ہے۔ انھوں نے کانگریس صدر ملکا ارجن کھڑگے کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر میں ان کی خوشی کی خاطر استعفیٰ بھی دے دوں تو کانگریس کی دال گلنے والی نہیں ہے۔ اس کو ابھی طویل انتظار کرنا پڑے گا۔
مجموعی طور پر سرمائی اجلاس اپنے آغاز سے لیکر اختتام تک زبردست ہنگامے کا شکار رہی۔اس کے لئےبر سر اقتدار اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے۔ سیاست میں دلچسپی لینے والے کچھ لوگوں کو کا ماننا ہے کہ اس ہنگامہ آرائی کی ذمہ دار کانگریس ہے۔سب سے پہلے تو وہ اپنی یکطرفہ ضد کی وجہ سے اپنے ہی بلاک میں اکیلی پڑ گئی۔کانگریس کچھ ایسے ایشوز پر بحث چاہتی تھی، جس سے حکمراں جماعت کو گھیرا جا سکے۔ پہلے اڈانی کے نام پر ایوان کو چلنے نہیں دیا گیا۔کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ کے احاطے میں پلے کارڈز لے کر احتجاج کر تے رہے ۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو سنبھل کے تشدد پر محتاط بحث چاہتے تھے۔ دوسری طرف، ترنمول کانگریس نے اڈانی معاملے پر عوامی طور پر خود کو کانگریس سے الگ کر لیا۔ سرمائی اجلاس کےآخر آخر تک کانگریس انڈیا اتحاد میں الگ تھلگ دکھائی دینے لگی تھی۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلے ہریانہ اور پھر مہاراشٹر میں شکست کی وجہ سے کانگریس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ ای وی ایم کے معاملے پر جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کانگریس کو آئینہ دکھانا شروع کر دیا کہ یہ نہیں چلے گا کہ جہاں وہ ہارے وہاں ای وی ایم میںگڑ بڑی تھی اور جہاں جیتے وہاں ای وی ایم ٹھیک تھی۔ دوسری طرف کانگریس کو کمزور ہوتے دیکھ کر ٹی ایم سی سپریمو ممتا بنرجی نے دبی زبان میںانڈیا بلاک کی قیادت کا دعویٰ کر دیا۔ آر جے ڈی کے بانی لالو پرساد یادو، جن کا شمار کانگریس کے سب سے بھروسہ مند حلیفوں میں ہوتا ہے، نے بھی ممتا بنرجی کی ہاں میں ہاں ملا دیا۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے دہلی اسمبلی انتخابات اکیلے لڑنے کا اعلان کر دیا۔ مجموعی طور پر انڈیا بلاک کے اندر کانگریس کی پوزیشن مسلسل کمزور ہوتی جا رہی تھی۔اسے پارلیمنٹ میں بھی انہیں اڈانی معاملے پر اپنے اتحادیوں سے متوقع حمایت نہیں مل رہی تھی۔اسی دوران راجیہ سبھا میں آئین پر بحث کے دوران ڈاکٹر امبیڈکر پر امت شاہ کا بیان آگیا۔امت شاہ نے کہہ دیا ’’یہ ایک فیشن بن گیا ہے۔ امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر،…۔ اگر تم نے خدا کا اتنا نام لیا ہوتا تو تم سات جنموں کے لیے جنت میں چلے جاتے۔‘‘ اس کے بعد کیا ہوا، اپوزیشن نے اس کلپ کو سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا اور امیت شاہ پر بابا صاحب کی توہین کا الزام لگاتے ہوئے ان سےاستعفیٰ کا مطالبہ شروع کر دیا۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس جو اب تک انڈیا اتحاد میں الگ تھلگ اور کمزور نظر آتی تھی، اب ایک بار پھر مرکزی کردار میں آگئی ہے۔ کانگریس کی طرح عام آدمی پارٹی بھی امبیڈکر کی مبینہ توہین کے معاملے کو گرم رکھنے میں مصروف ہے۔سنیچر کے روز کو انہوں نے دلت طلباء کے لیے امبیڈکر کے نام پر اسکالرشپ اسکیم کا اعلان کیا۔عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی نظر دہلی کی دلت آبادی کے ووٹ پر ہے۔ دوسری طرف، بی جے پی ڈیمیج کنٹرول میں مصروف ہے۔اس کا الزام ہے کہ آدھی ادھوری ویڈیو کلپس شیئر کرکے لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے۔
بہر حال اس وقت ملک میں بی آر امبیڈکر کے نام پر سیاست چل رہی ہے، ایک مقابلہ ہے کہ کون ان کا صحیح معنوں میں احترام کرتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے معاملہ اتنا بڑا ہو گیا کہ اس کی وجہ سےملک کی پارلیمنٹ ہی ٹھپ پڑگئی۔ اس کے بعد جس طرح امبیڈکر کی توہین کو لے کر سڑکوں پر احتجاج ہو رہا ہے، اس سے یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ آئین کے خالق کا حقیقی پیروکار کون ہے؟ بی جے پی ، کانگریس یا عام آدمی پارٹی؟۔ مگر ملک کے عام شہریوں کے مطابق امبیڈکر کا دل سے احترام کرنے والے وہی لوگ ہیں، جو ان کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں۔ صرف سیاست نہیں کرتے۔
**********