رمضان کے مہینے میں بڑھ جاتی ہیں مسلم خواتین کی ذمہ داریاں

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 24-May-2018

رمضان کا بابرکت مہینہ ہمیں ایک بار پھر نصیب ہوا ہے۔ اس مہیںہ میں مسلم مردو خواتین انتہائی عجز وانکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے روزے رکھتے ہیں۔ باقاعدگی سے پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں، قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں، ذکر واذکار میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں، دنیاوی زندگی کے لئے روزہ مرہ کی ان کی دوڑ دھوپ کم ہو جاتی ہے اور وہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں اپنا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔

لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ رمضان کے مہینہ میں مسلم خواتین کی ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے۔ انہیں جہاں ایک طرف روزہ، نماز، تلاوت قرآن کریم اور ذکر واذکار اور دیگر نوافل کی بجاآوری میں دن ورات کا زیادہ ترحصہ گزارنا پڑتا ہے، وہیں، انہیں گھروں کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھنے سے لے کر افطار وسحری میں انواع واقسام کی ماکولات و مشروبات کی منصوبہ بندی کرنا اور پھر انہیں تیار کرنا اور وقت پر انہیں دسترخوان پر سجا دینا ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ انہیں اپنے بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنا ہوتی ہے اور شاپنگ کے لئے بازاروں کا رخ بھی کرنا پڑتا ہے۔

مسلم خواتین رمضان کے مہینہ میں اپنی مصروفیتوں کو لے کر پریشان ہو جاتی ہیں یا پھر وہ خوشی بخوشی اپنے سارے کام انجام دیتی ہیں، اس سلسلہ میں نیوز 18 اردو نے کچھ خواتین سے فون پر رابطہ کیا اور ان سے ان کا حال دل جاننا چاہا تو ان سبھوں نے رمضان میں اپنی مصروفیتوں کے تئیں اطمینان کا اظہار کیا ۔

اسی ضمن میں دلی کے شاہین باغ، جامعہ نگر میں رہنے والی ہاجرہ سے جب نیوز 18اردو نے فون پر رمضان کے ماہ میں ان کا شیڈول جاننا چاہا اور پوچھا کہ کیا اس سے آپ کو کوئی پریشانی ہوتی ہے  تو ہاجرہ نے جواب دیا کہ رمضان میں تو شیڈول اور بھی اچھی طرح سے پورا ہو جاتا ہے اور کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ دل میں خوشی ہوتی ہے اور دلچسپی ہوتی ہے، طرح طرح کا کھانا بنانے میں ایک الگ ہی مزہ آتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اتنی دلچسپی اور خوشی  ہوتی ہے کہ  یہاں خود بخود ذہن میں آ جاتا ہے کہ سحری اور افطار کے لئے کیا کیا بنانا ہے۔

بازار میں خریداری کرنے کی بات پر ہاجرہ نے کہا کہ ہم رمضان سے پہلے ہی زیادہ تر خریداری کر لیتے ہیں اور اگر پھر بھی ضرورت پڑتی ہے تو چلے جاتے ہیں ۔عید کی تیاری  کی بات پر ہاجرہ بولتی ہیں کہ اب تو سبھی پہلے سے ہی عید کے کپڑے خرید کر رکھ لیتے ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ رمضان عبادت کا مہینہ ہے جو سال میں ایک بار آتا ہے۔ اس میں بھی ہم سارا وقت اگر بازاروں میں گزار دیں گے تو عبادت اور رمضان کا اہتمام کیسے کرپائیں گے اس لئے ہم ساری  تیاریاں رمضان سے پہلے ہی کر لیتے ہیں۔

سحری میں اٹھنے میں کوئی پریشانی ہوتی ہے، اس سوال پر ہاجرہ نے کہا نہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ فجر کی نماز کیلئے اٹھتے ہیں اور اس سے پہلے کا وقت سحری کا ہوتا ہے تو سحری کرکے نماز پڑھ کر پھر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس کے بعد تھوڑا جو بھی گھر کا کام ہوتا ہے وہ سمیٹ کر سو جاتے ہیں۔ کیونکہ رمضان میں جہاں کئی مزید کام کرنے پڑتے ہیں وہیں، اس مہینہ میں یہ فائدہ بھی ملتا ہے کہ اس میں نہ تو ناشتہ بنانا پڑتا ہے اور نہ ہی دوپہر کا کھانا۔

وہیں، دوسری طرف جب ہم نے رمضان میں افطاری و سحری میں کھانے پینے کی تیاریوں کو لیکر دہلی کے جامعہ نگر میں رہنے والی عطیہ نور سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ رمضان عبادت کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا بھی مہینہ ہے اور جب انسان سارا دن روزے کی حالت میں ہوتا ہے تو طرح طرح کی چیزیں کھانے کا دل بھی کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سب کی الگ الگ فرمائش ہوتی ہے اور سبھی فرمائش پر دھیان دینا پڑتا ہے۔ عطیہ نور نے مزید کہا کہ افطار میں کئی طرح کی پکوڑیاں ،چاٹ ،چنے، شربت، کھجور یہی تو رمضان کا مزہ ہے۔ رمضان میں اللہ اپنی برکتوں اور نعمتوں سے ہمیں نوازتا ہے تو ہم بھی دسترخوان کو وسیع کردیتے ہیں۔عطیہ کہتی ہیں کہ سحری میں بھی کسی کو دودھ،کسی کو سوئیاں ، کسی کو ڈبل روٹی چاہئے ہوتی ہے تو سب کا من پسند ڈش بھی تیار کرنا پڑتا ہے۔ سب کی پسند اور سب کی خوشی میں اللہ کی خوشی  ہے ۔

اسی سلسلہ میں بلند شہر سے تعلق رکھنے والی حنا سے جب بات کی کہ آپ کو رمضان کی زیادہ ذمہ داریاں اور ساتھ ہی عبادات کی انجام دہی میں کوئی مشکل تو نہیں ہوتی تو حنا کہتی ہیں کہ رمضان میں  ذمہ داریاں تو ضرور بڑھ جاتی ہیں لیکن  رمضان پریشانیوں یا مشکلات کا مہینہ نہیں بلکہ یہ صبر اور شکر کا مہینہ ہے۔ اس میں کام یا ذمہ داریاں چاہیں کتنی بڑھ جائیں محسوس ہی نہیں ہوتیں، کیونکہ اللہ تعالی اس مہینہ میں ہمارے اندر ایک الگ قسم کی ہمت اور قوت پیدا کر دیتا ہے۔ ہمیں اپنی بڑھی ہوئی ذمہ داریوں کا بوجھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔

پورے گھر کا کام کیسے سنبھال لیتی ہیں، اس سوال پر حنا نے کہا کہ پورے گھر کی تو بات چھوڑیئے کام کے ساتھ ساتھ رشتہ داری بھی بہت اہم ہوتی ہے اور اسے بھی نبھانا ہمارے لئے ضروری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ابھی رمضان میں میرے ایک قریبی رشتہ دار کے بچے کا سڑک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔ خبر  ملتے ہی میں اور میرے شوہر بچوں کے ساتھ  بلند شہر کیلئے روانہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ میں دہلی میں رہتی ہوں ۔ چنانچہ دیر رات رمضان کی وجہ سے مجھے دلی واپس لوٹنا پڑا۔ یہاں آکر تراویح کی نماز پڑھی  اورپھر سحری کی تیاری میں لگ گئی لیکن مجھے اس میں بالکل بھی تھکن کا احساس نہیں ہوا کیونکہ اللہ خود ہی ہمت دے دیتا ہے۔