Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 23rd Jan.
ریاض فردوسی
اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا(پارہ2،سورۃ البقرۃ، آیت185)اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے(پارہ3،سورۃ البقرۃ، آیت۔286)
اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی(پارہ17،سورۃ الحج، آیت78)اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے(پارہ6، سورۃ المائدۃ، آیت6)اللہ چاہتا ہے کہ تم پرآسانی کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا ہے (پارہ5،سورۃ النساء ۔آیت28)
بے شک دِین آسان ہے(بخاری،ج1،ص26،حدیث:39)
ہم مسلمانوں کو اللہ تعالی کا مشکور و ممنون ہونا چاہیے اور اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ہمیں ایک آسان دین عطا کیا گیا، سورۃ الاعراف آیت 157 میں رسالت مآب ﷺ کے متعلق ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی!
’’آنحضرت ﷺ لوگوں سے اس بوجھ اور بند کو جو ان پر مسلط تھی ہٹا دیں گے، امت محمدیہ سے پہلے بنی اسرائیلیوں پر اللہ تعالی نے ایسے ایسے احکام نافذ کر دیے تھے، جن کا کرنا ان کے لیے دشوار اور مشکل ہو گیا تھا،ان میں سے بعض احکام بطور سزا ان پر نافذ کیے گیے تھے،مثلا کپڑا ناپاک ہوجائے تو پانی سے دھو دینا بنی اسرائیل کے لئے کافی نہ تھا بلکہ یہ واجب تھا کہ جس جگہ نجاست لگی ہے اس کو کاٹ دیا جائے، اور کفار سے جہاد کرکے جو مال غنیمت ان کو ہاتھ آئے،ان کے لئے حلال نہیں تھا بلکہ آسمان سے ایک آگ آکر اس کو جلا دیتی تھی، ہفتہ کے دن (Sabbath) ان کا کام کرنا ممنوع تھا، جن اعضاء سے کوئی گناہ صادر ہو ان اعضاء کو کاٹ دینا واجب تھا،کسی کا قتل خواہ عمد ہو یا خطاء دونوں صورتوں میں قصاص یعنی قاتل کا قتل کرنا واجب تھا ،خون بہا دینے کا قانون نہ تھا، توبہ کی علامت کے طور پر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ آپس میں قتال کریں،اسی طرح حائضہ عورت کے ساتھ بیٹھنا،اس کے ساتھ مل کر کھانا اور اس کے ہمراہ لیٹنا وغیرہ ممنوع تھا۔ارشاد باری تعالی ہے: اور یہود پر ہم نے حرام کیا تھا ہر ایک ناخن والا جانور اور گائے اور بکری میں سے حرام کی تھی ان کی چربی مگر جو لگی ہو پشت پر یا انتڑیوں پر یا جو چربی کہ ملی ہوئی ہو ہڈی کے ساتھ یہ ہم نے ان کو سزا دی تھی ان کی شرارت پر اور ہم سچ کہتے ہیں(سورۃ الانعام، آیت نمبر 146)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ ایک روز نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:یہودی جان لیں کہ ہمارے دین میں وُسْعت ہے، بے شک میں حنیف اور آسانی والے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں(مسند احمد،جلد۔41،صفحہ349)
ان احکام شاقہ اور دشوار واجبات کو قرآن میں اصر اور اغلال فرمایا اور یہ خبر دی کہ رسول کریم ﷺ ان سخت احکام کو منسوخ کرکے سہل احکام جاری فرمائیں گے۔ اسی کو آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ میں نے تم کو ایک سہل اور آسان شریعت پر چھوڑا ہے جس میں نہ کوئی مشقت ہے نہ گمراہی کا اندیشہ(او کما قال ﷺ)
اس ضمن میں اس امت کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ!
کہو کہ اے ہمارے پروردگار تو ہماری بھول چوک پر ہماری پکڑ نہ کر۔اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ لاؤ جو ہم سے پہلوں پر تھا۔اے ہمارے رب ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ کر۔ہمیں معاف فرما،ہمیں بخش،ہم پر رحم فرما۔تو ہی ہمارا کار ساز مولیٰ ہے۔پس ہمیں کافروں پر مدد عطا فرما(سورۃ ال عمران،آیت 286)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صاف آسان اور سہل دین دیکر بھیجا گیا۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ میں ایک طرف آسان دین دے کر معبوث کیا گیا ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جب حضورﷺ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں تم دونوں خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا، سختی نہ کرنا، مل کر رہنا، اختلاف نہ کرنا۔ آپ ﷺکے صحابی ایوبرزہ اسلمیؓ فرماتے ہیں میں حضور کے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے پہلی امتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس امت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی۔ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی ” اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اگر ظاہر کرو گے اپنے جی کی بات یا چھپاؤ گے اس کو حساب لے گا اس کا تم سے اللہ پھر بخشے گا جسکو چاہے اور عذاب کرے گا جس کو چاہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۃ البقرۃ، آیت ۔284) تو صحابہ کرامؓ کو سخت فکر وغم لاحق ہوگئی کہ اگر غیر اختیاری خیالات و وسواس پر بھی مواخذہ ہونے لگا تو کون نجات پائے گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اس فکر کو رسول اللہﷺ سے عرض کیا تو آپ ﷺنے سب کو یہ تلقین فرمائی کہ جو کچھ حکم ربانی نازل ہوا اس پر سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہو یعنی ہم نے حکم سن لیا اور تعمیل کی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اس کے مطابق کیا تو اللہ تعالی نے آیت وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسُکُمْ آیت کو منسوخ کر دیا اور آیت ۔لَا یُکَلِّفُ اللہ نَفْسًا اتار دی یعنی ’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 156,باب ایمان)
اللہ تعالی نے مرد و عورت کو جو بھی احکام دیے ہیں وہ ان کے قوت، طاقت، صلاحیت اور استطاعت کے مناسبت سے دیے ہیں لیکن یہ تمام قوتیں اور صلاحیتیں ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتی، انسان بیمار پڑتا ہے، وہ ضعیف بھی ہو جاتا ہے ایسی حالات میں اللہ تعالی اپنے بندوں پر کرم فرماتا ہے اور عدم قوت یا تخفیف صلاحیت کی وجہ سے اپنے احکام میں رخصت اور ڈھیل بھی دیتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے وہ چاہتا ہے تم پر آسانی وہ نہیں چاہتا ہے تم پر دشواری (سورۃ البقرہ، 185)ایک جگہ ارشاد فرمایا (اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی (سورہ الحج آیت نمبر 78) ایک جگہ اور ارشاد فرمایا(خدا چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے (سورۃ النساء، آیت نمبر 28) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے دین اللہ یسر (اللہ کا دین) آسان ہے۔ اسی کمزوی اور دشواری کے سبب روزہ داروں کے لیے حکم ہوا کہ سورۃ البقرہ، آیت نمبر 185 میں درج ہے ۔مریض اور مسافر کو رخصت دی گئی ہے کہ وہ مرض اور سفر کے حالت میں روزہ نہ رکھیں، تندرستی ہونے پر اور سفر کے ختم ہونے پر اتنے دنوں کی قضاء کرلیں؛ نماز کے لیے وضو اور طہارت شرط ہے لیکن اگر کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو یا شرعی عذر ہے اورکوئی ہم میں سے بیت الخلا سے ہوکر آیا ہو یا عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور پانی نہ مل سکے تو اللہ تعالی نے ہمیں رخصت دی ہے کہ ہم تیمم کر لیں (سورۃ المائدۃ۔آیت نمبر 6)
عبادت کے لیے طہارت ضروری ہے اس لیے حیض کے دوران عورتوں کو نماز پڑھنے سے منع کیا گیا،جو صاحب حج کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس پر حج فرض نہیں کیا گیا،جو لوگ صاحب نصاب نہیں ہے ان پر زکوۃ کی ادائیگی کو لازم نہیں کیا گیا؛ صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضور ﷺ نماز شروع کرتے اور طوالت کا ارادہ کرتے لیکن جب بچے کے رونے کی آواز سنتے تو آپﷺ تلاوت میں تخفیف کرتے تاکہ بچے کی والدہ کو شدت تکلیف نہ پہونچے (کتاب الصلوۃ،140)؛ ایک اور روایت میں بیان کیا گیا کہ حضور ﷺ فرماتے جو لوگوں کی امامت کرے تو وہ تخفیف کرے کیونکہ اس کی اقتداء میں بوڑھے کمزور اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں (صحیح مسلم، باب کتاب الصلوۃ، 132)
عام حالت میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے بعض چیزوں کا کھانا حرام قرار دیا مثلاً مردہ جانور، خون، خنزیر کا گوشت اور جس جانور پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے لیکن اضطرار کی حالت میں ان حرام چیزوں کے کھانے سے اللہ تعالیٰ کھانے والے سے مواخذہ نہیں کرتاکیونکہ اس اضطراری حالت میں ان حرام چیزوں کے کھانے کو اللہ تعالی گناہ قرار نہیں دیتا، اللہ تعالی دو شرطوں کے ساتھ یہ حرام چیزیں کھا لینے کی گنجائش دی ہے ایک شرط یہ ہے کہ مقصود جان بچانا ہو دوسری شرط یہ ہے کہ صرف اتنی مقدار کھائے جو جان بچانے کے لئے کافی ہو،بیشک اللہ تعالی بڑا بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 173)
اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کا ناحق قتل کر ڈالتا ہے اور پھر عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تو مقتول کے وارث کو حق حاصل ہے کہ وہ قاتل سے قصاص کا مطالبہ کرے۔قصاص کا مطلب ہے برابر کا بدلہ لینا، لیکن یہاں اللہ تعالی نے قاتل کے حق میں ایک رخصت یہ دی کہ مقتول کے ورثاء اگر چاہیں تو قاتل سے مقتول کا قصاص معاف کرکے خوں بہا کے طور پر کچھ رقم کا مطالبہ کریں،دیت کا سہولت دیکر اللہ تعالی قاتل کے سزا میں تخفیف کرتا ہے اور اس پر اپنی رحمت عنایت کرتا ہے(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 178)
رسالت مآب ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے طرف سے حکم ہوا کہ آپ رات میں قیام الیل کریں، اس نماز کا مقصد یہ تھا کہ اس میں زیادہ سے زیادہ قران کی تلاوت کی جائے، اس حکم کے بعد رسالت مآبﷺ اور آپ کے ساتھ صحابہ کرامؓ بھی دیر رات تک قیام الیل کرتے یہاں تک کہ آپ سبھوں کے پاؤں ورم پر جاتے، پھر کچھ مہینوں بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اس حکم میں تخفیف کر دی اس حکم کے آسانی کرنے کے پیچھے کچھ بنیادی اشتغال تھا، مثلا۔ صحابہ کرامؓ کو رزق کے تلاش میں سفر کرنا پرتا ہے، ا ن میں سے بعض لوگ بیمار بھی پڑتے ہیں اور بعض لوگوں کو قتال میں شریک ہونے پڑتا تھا، بس اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کے نماز میں اتنا ہی قران کی تلاوت کی جائے جتنا آسان ہو(سورۃ المزمل آیت نمبر 20)
انسان خلقی طور پر ضعیف ہے اور اس کے اندر شہوانی مادہ رکھا گیا ہے، عورت مرد کی کمزوری ہے شہوانی جذبات کی تکمیل کے لیے انسان زنا نہ کر بیٹھے اس لیے نکاح کے بارے میں ایسے نرم احکام دیئے جن پر سب عمل پیرا ہو سکتے ہیں،کچھ عورتوں کو چھوڑ کر جن کا ذکر سورہ النساء، آیت نمبر22 اور 23 میں ہوا ہے باقی ان عورتوں کے علاوہ مسلمان کسی سے نکاح کر سکتا ہے، اگر آزاد عورتوں سے نکاح کی طاقت نہ ہو تو باندیوں سے نکاح کی اجازت دے دی ہے، مہر کے بارے میں طرفین کو باہمی رضا مندی سے طئے کرنے کا اختیار دیا اور ضرورت کے وقت ایک سے زائد عورت سے بھی نکاح کی اجازت دی گئی، بشرطیکہ عدل ہاتھ سے نہ چھوٹے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو وہی احکام دیتا ہے جس کے کرنے کی وہ طاقت رکھتا ہے اللہ تعالی نے ایسا کوئی بھی حکم نہیں دیا، جس کا کرنا ہمارے لیے بھاری اور مشکل ہو لیکن شرط یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے احکام پر چلنے کا ارادہ کرے ورنہ نماز کا پڑھنا مثال کے طور پر سوائے ان لوگوں کے جن کو اپنے رب سے ملاقات کرنے کا یقین ہو اور اسی کے طرف رجوع کرنا ہے باقی لوگوں پر گراں گزرتا ہے(سورۃ البقرہ، 46)
چند مثالیں!
نماز کے علاوہ بنیادِ اسلام کی فرضیت میں استطاعت کی سہولت کے ساتھ مشروط کیا گیاہے۔
خطائً قتل ہونے کی صورت میں حکمِ قصاص نہیں رکھا گیا، بلکہ دیت مقرر کی گئی، کیونکہ قاتل نے عمداً قتل نہیں کیا تھا، لہذا اُس کی جان بچائی گئی اور دیت مقرر کی گئی۔
کفارہِ ظہار میں آسانی کے لئے تین اختیارات دیے گئے۔ اولاً غلام کو آزاد کرنا، ورنہ مسلسل ساٹھ روزے، ورنہ ساٹھ مساکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا۔
کفارہِ یمین میں بھی نرمی کو رکھی گئی ہے۔
مقروض کی تنگدستی اور مجبوری کی بناء پر قرض دینے والے کو حکمِ آسانی ورِفق(نرمی) دیا گیا۔
اضطراری حالات میں ہمارا دینِ فطرت وُسعت کا وسیع باب کھولتا ہے، جس کے احکامات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بہت سی ممنوعہ اشیاء کے بقدرِ ضرورت استعمال کو جائز قرار دے دیتا ہے۔
جس تدریجی انداز میں شراب کو ممنوع کیا گیا، وہ اسلام کے اصولِ آسانی کی بڑی واضح دلیل ہے (ماخوذ۔فتویٰ مفتی قاسم عطاری صاحب)
آخر میں!
حضرت ابو مسعود انصاری ؓسے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی پاک ﷺسے عرض کی کہ یارسول ا للہﷺ ! ہو سکتا ہے کہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کر سکوں، کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت طویل قرائت کے ساتھ نماز پڑھاتا ہے، حضرت ابو مسعود رؓ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے کے لحاظ سے اُس دن سے زیادہ کبھی نبی پاک ﷺ کو جلال میں نہیں دیکھا، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:اے لوگو! تم اللہ کے بندوں کو دِین سے دور کرتے ہو، اب جوشخص بھی لوگوں کو نماز پڑھائے اُسے چاہیے کہ قرائت میں تخفیف کرے، کیونکہ نمازیوں میں بیمار، کمزور جان اور ضرورت مند لوگ بھی ہوتے ہیں(صحیح البخاری،جلد1، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رای ما یکرہ،صفحہ19)
آپ ﷺ نے مسجد میں پیشاب کرنے والے اعرابی کے ساتھ سختی نہیں برتی۔
****************
9968012976