اللہ میـــری توبــــہ

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 17th Jan.

ریاض فردوسی

اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو،خالص توبہ۔تمہارا رب قریب ہے کہ تم سے تمہاری برائیاں دورکردے اورتمہیں داخل کردے ان باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،اس دن اللہ تعالیٰ نبی کواوراُن لوگوں کوجواُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں،رُسوانہ کرے گا،اُن کانوراُن کے آگے اوراُن کی دائیں جانب دوڑرہا ہو گا،وہ کہیں گے: اے ہمارے رب!ہمارانور مکمل کردے اور ہمیں بخش دے،بلاشبہ تو ہر چیزپرپوری قدرت رکھنے والا ہے(سورہ التحریم۔پارہ۔28۔آیت۔8)
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’سچی توبہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر، سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کرفوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے۔مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب (ناجائز قبضہ) سرقہ(چوری) رشوت، ربا(سود)سے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق (یعنی صدقہ)کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا۔‘‘
مولانا نعیم الدین مراد آبادی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:’’توبۂ صادِقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو، اُس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمورہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب(یعنی بچتا) رہے۔
امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اور دوسرے اَصحاب نے فرمایا کہ توبۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔جب بندے کو اس بات کی معرفت حاصل ہوجائے کہ گناہ کا نقصان بہت بڑا ہے، گناہ بندے اور اس کے سچے محبوب اللہ تعالیٰ کے درمیان رکاوٹ ہے تو وہ اس گناہ کے ارتکاب پر ندامت اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قصد واِرادہ کرتا ہے میں گناہ کو چھوڑ دوں گا، آئندہ نہ کروں گا اور جو پہلے کیے ان کی وجہ سے میرے اعمال میں جو کمی واقع ہوئی اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا تو بندے کی اس مجموعی کیفیت کو توبہ کہتے ہیں۔ علم ندامت اور اِرادے ان تینوں کے مجموعے کا نام توبہ ہے لیکن بسا اوقات ان تینوں میں سے ہر ایک پر بھی توبہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔بعض مسلمانوں میں یہ بدگمانی عام ہے کہ ہمیں اللہ کی رحمت پر بھروسہ ہے وہ ہمیں عذاب نہیں دے گا،اللہ بڑا رحیم ہے،بڑا معاف کرنے والا ہے وغیرہ وغیرہ۔بے شک یہ سچ ہے لیکن یاد رکھے اللہ عادل بھی ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ کے رحیم وکریم ہونے میں کسی مسلمان کو شک وشبہ نہیں ہوسکتا لیکن جس طرح یہ دونوں اس کی صفات ہیں اسی طرح قہار اور جبار ہونا بھی ربّ عَزَّوَجَلَّ کی صفات ہیں اور یہ بات بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے مسلمان جہنم میں بھی جائیں گے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ بدگمانی کے شکار مسلمان غضب ِ الٰہی کا شکار ہوں اور جہنم میں جائیں،
یہ بدگمانی دور کریں کہ مجھ پر رحمت الٰہی کی چھماچھم برسات ہو اور مجھے داخل جنت کیا جائے گا؟اللہ بہتر عدل کرنے والا ہے۔اصل میں ”توبۃً نصوحاً” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ نصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیرخواہی کے ہیں۔ خالص شہد کو عسل ناصح کہتے ہیں جس کو موم اور دوسری آلائشوں سے پاک کر دیا گیا ہو۔ پھٹے ہوئے کپڑے کو سی دینے اور ادھڑے ہوئے کپڑے کی مرمت کر دینے کے لیے ’’نصاحۃ الثوب‘‘کا لفاظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پس توبہ کو نصوح کہنے کا مطلب لغت کے اعتبار سے یا تو یہ ہو گا کہ آدمی ایسی خالص توبہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو، یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیرخواہی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بدانجامی سے بچا لے،یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے، توبہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کر دے، یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سنوار لے کہ دوسروں کے لیے وہ نصیحت کا موجب ہو اور اس کی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسی کی طرح اپنی اصلاح کر لیں۔ یہ تو ہیں توبہ نصوح کے وہ مفہومات جو اس کے لغوی معنوں سے بیاںہوتے ہیں۔ رہا اس کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم ؒنے زر بن حبیش ؒ کے واسطے سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے توبہ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہی سوال کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہو جائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘ یہی مطلب حضرت عمر ؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی منقول ہے، اور ایک روایت میں حضرت عمر ؓ نے توبۂ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے (ابن جریر)۔
حضرت علی ؓ نے ایک مرتبہ ایک بدو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ ’’توبۃ الکذابین‘‘ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ فرمایا: اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہیے !
(1) جو کچھ ہو چکا ہے اس پر نادم ہو (2) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کر (3) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کر (4) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگ (5) آئندہ کے لیے عزم کر لے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا (6) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھلا دے جس طرح تو نے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے۔
توبہ کے سلسلہ میں چند امور اور بھی ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اول یہ کہ توبہ درحقیقت کسی معصیت پر اس لیے نادم ہونا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی ہے۔ ورنہ کسی گناہ سے اس لیے پرہیز کا عہد کر لینا کہ وہ مثلاً صحت کے لیے نقصان دہ ہے، یا کسی بدنامی کا، یا مالی نقصان کا موجب ہے، توبہ کی تعریف میں نہیں آتا۔ دوسرے یہ کہ جس وقت آدمی کو احساس ہو جائے کہ اس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے، اسی وقت اسے توبہ کرنی چاہیے اور جس شکل میں بھی ممکن ہو بلا تاخیر اس کی تلافی کر دینی چاہیے، اسے ٹالنا مناسب نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ توبہ کر کے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور توبہ کو کھیل بنا لینا اور اسی گناہ کا بار بار اعادہ کرنا جس سے توبہ کی گئی ہو، توبہ کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہے، اور بار بار کی توبہ شکنی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرمساری موجود نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ جو شخص سچے دل سے توبہ کر کے یہ عزم کر چکا ہو کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا، اس سے اگر بشری کمزوری کی بنا پر اسی گناہ کا اعادہ ہو جائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ ہو گا البتہ اسے بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنی چاہیے اور زیادہ سختی کے ساتھ عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ وہ توبہ شکنی کا مرتکب نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ ہر مرتبہ جب معصیت یاد آئے، توبہ کی تجدید کرنا لازم نہیں ہے، لیکن اگر اس کا نفس اپنی سابق گناہ گارانہ زندگی کی یاد سے لطف لے رہا ہو تو بار بار توبہ کرنی چاہیے یہاں تک کہ گناہوں کی یاد اس کے لیے لذت کے بجائے شرمساری کی موجب بن جائے۔ اس لیے کہ جس شخص نے فی الواقع اللہ کے خوف کی بنا پر معصیت سے توبہ کی ہو وہ اس خیال سے لذت نہیں لے سکتا کہ وہ خدا کی نافرمانی کرتا رہا ہے۔ اس سے لذت لینا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کے خوف نے اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی ہے۔
آیت کے الفاظ قابل غور ہیں۔یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ توبہ کر لو تو تمہیں ضرور معاف کر دیا جائے گا اور لازماً تم جنت میں داخل کر دیے جاؤ گے، بلکہ یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرو گے تو بعید نہیں کہ اللہ تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ گناہ گار کی توبہ قبول کر لینا اور اسے سزا دینے کے بجائے جنت عطا فرما دینا اللہ پر واجب نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر اس کی عنایت و مہربانی ہو گی کہ وہ معاف بھی کرے اور انعام بھی دے۔ بندے کو اس سے معافی کی امید تو ضرور رکھنی چاہیے مگر اس بھروسے پر گناہ نہیں کرنا چاہیے کہ توبہ سے معافی مل جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جس نے گناہ سے توبہ کی وہ ایسا ہے جس نے گناہ ہی نہ کیا ہو(او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم)
ایک نوجوان حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے پاس آیا، اور کہا حضرت! گناہ کا مزہ میرے نفس کو مل چکا ہے،چھوڑنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن نفس راضی نہیں ہے۔دل میں خوف ہوتا ہے عاصیوں پراللہ کاعذاب بر حق ہے۔تو کوئی راستہ بتا دیں کہ میں اپنے رب کے عذاب سے محفوظ ہو جائوں اور گناہ بھی کرتا رہوں(معاذاللہ)
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ نے فرمایا، ہاں، میں تجھے ایساطریقہ بتاتا ہوں، جس سے تو دونوں کام آسانی سے کر سکتا ہے۔ وہ نوجوان بڑا خوش ہو گیا۔ آپ نے فرمایا پہلی تجویز: تو یہ ہے کہ اگر گناہ کرنا ہی ہے تو اللہ رب العزت کی نگاہوں سے اوجھل ہوکر کر لیا کرو۔ کہنے لگا،حضرت یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اللہ رب العزت کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر گناہ کروں یہ تو ممکن ہی نہیں۔
حضرت نے فرمایا،پھر دوسری تجویز یہ ہے کہ تم رزق کھانا چھوڑ دو،اللہ سے کہہ دینا کہ نہ تمہارا کھانا کھاتا تھا اور نہ تمہاری بات مانتا تھا،اس نے کہا حضرت! یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کھانا چھوڑ دوں؟میں پھر زندہ کیسے رہوں گا؟
حضرت نے فرمایا پھر تیسری تجویز پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ زمین و آسمان اللہ رب العزت ہی کا ملک ہے۔اسی کی حکومت میں ہے اور بادشاہ کی نافرمانی اس کے ملک میں رہ کر کرنا یہ ٹھیک نہیں ہے۔لہٰذا اس سے باہر نکل کر نافرمانی کرنا چاہئیے ، اللہ وحدہ لا شریک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اگر تمہارے اندر استطاعت ہے کہ زمین و آسمان کے حدوں سے باہر نکل سکتے ہوتو نکل کر دکھلاؤ، تم ہر گز نکل نہیں سکتے۔‘‘ (تفہیم سورہ رحمن: آیت نمبر 33)نوجوان نے کہا کہ حضرت! یہ بھی نہیں ہو سکتا۔
ابراہیم ابن ادہم فرمانے لگے اچھا پھر ایک طریقہ اور بتاتا ہوں وہ یہ کہ جب ملک الموت آئیں روح قبض کرنے کے لیے تو انہیں کہہ دینا کہ تھوڑا انتظار کر لو تاکہ میں توبہ کر لوں،اس نے کہا:حضرت! وہاں تو انتظار کا تصور ہی نہیں۔ ’’جب موت آتی ہے تو نہ ایک لمحہ آگے ہوتی ہے اور نہ پیچھے۔‘‘
فرمایا، ایک طریقہ اور بتاتا ہوں،وہ یہ کہ جب قبر میں تم کو دفن کر دیا جائے اور اس وقت منکر نکیر آئیں تم سے سوال پوچھنے کے لئے،تو تم کہہ دینا کہ بغیر اجازت کیوں آئے؟اس نے کہا، حضرت! میں ان کو کیسے منع کر سکتا ہوں؟
حضرت فرمانے لگے، ایک اور طریقہ بتاتا ہوں وہ یہ کہ جب قیامت کے دن تمہارے برے عملوں کو کھولا جائے گا،اور پروردگار عالم فرشتوں کو حکم دے گا، کہ اس کو گھسیٹ کر تم جہنم میں ڈال دو،تو اس وقت تم ضد کر کے کھڑے ہو جانا کہ میں نہیں جاؤ گا۔اس نے کہا کہ حضرت! میری کیا حیثیت ہے کہ فرشتوں کے سامنے ضد کر کے کھڑا ہو جاؤں،میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔
ابراہیم ابن ادھم ؒ نے فرمایا کہ اے بھائی،جب تیری حیثیت ہی کوئی نہیں،تو اللہ وحدہ لا شریک کی نافرمانی کیوں کرتا ہے؟
وہ شخص کہنے لگا،حضرت آج سے میں گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور آج کے بعد وعدہ کرتا ہوں کہ اللہ جل جلالہ کی نافرمانی ہرگز نہیں کروں گا،اور وہ ہمشیہ کے لئے گناہوں سے تائب ہو گیا(تاریخ الاولیاء)
(توبہ ٔ نصوح کی مزید معلومات کے لئے ان حوالہ جات کامطالعہ کریں۔اِحیاء العلوم،4 / 11ملخصا،خزائن العرفان، پ 28، التحریم، تحت الآیۃ: 8۔خزائن العرفان، پ 28، التحریم، تحت الآیۃ: 8۔احیاء العلوم، ج4، ص17ماخوذا۔فتاوی رضویہ،21 / 121۔توبہ کی روایات وحکایات، ص21۔مسلم، کتاب التو بۃ،باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالی، ص 1472، حدیث:2754۔احیاء العلوم،4 /38۔احیاء العلوم،4/ 38۔سند امام احمد، حدیث ابی موسی الاشعری، 7 / 165، حدیث: 19717۔مسند امام احمد، حدیث معاذ بن جبل،8 / 245، حدیث: 22120۔مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الزھد، کلام عمر بن الخطاب،8 / 150، حدیث:24۔تاویٰ رضویہ قدیم، 10 / 97ماخوذا۔فتاویٰ رضویہ،21 / 142۔کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص622، 28کلمات کفر، ص9)
***************
9968012976