خدا بخش لائبریری میںادب اور مہذب زندگی کے موضوع پر لکچر کا انعقاد

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 19th Jan.

۱۹؍۱؍۲۰۲۳ء: ادب اورزندگی کا ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ زندگی کو سنوارنے اور نکھارنے میں ادب نے بڑا رول ادا کیا ہے۔ ادب پر امن ، پر سکون اور مہذب زندگی گزارنے میں ہماری بڑی مدد کرتا ہے۔ ہر زبان میں اچھے ادب لکھے جارہے ہیں۔ اس کا مطالعہ ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھاتے ہیں، خاص طو پر انسانیت نوازی کا پیغام ہمیں ان ادبیات سے ملتا ہے اور اس پیغام پر عمل کرنے سے ہماری زندگی خوشگوار ہوسکتی ہے۔خدا بخش لائبریری کا مشن بھی یہی ہے کہ علم و ادب کی اشاعت کی جائے اور انسان کی خدمات کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا جائے۔ اس تمہیدی گفتگو کے بعد ڈاکٹر شائستہ بیدار، ڈائرکٹر خدا بخش لائبریری نے فرمایا کہ مشی گن یونیورسٹی، امریکا کے اسکالر جناب جے دیپ پانڈے تقابلی ادب پر ایک اچھی تحقیق کر رہے ہیں، اس کی روشنی میں ان کی گفتگو بڑی معنی خیز ہوگی۔
جناب جے دیپ پانڈے نے اس موقع پر کہا کہ ادب ایک بے حد وسیع میدان ہے۔ جس میں ادب اور خوبصورتی، ادب اور اخلاق اور ادب اور زندگی کا براہ راست تعلق ہمارے روز مرہ کی زندگی سے ہے۔ ادب چاہے کسی زبان کا ہو، انسانی زندگی میں خوبصورتی پیدا کرنے کا کام کرتاہے، جس سے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ لطف اندوز ہوسکتے ہیں جیسے کبیر کے ایک دوہے میں کہا گیا ہے کہ’’ایسی وانی بولئے، من کا آپ کھوئے، اورن کو شیتل کرے، آپہن شیتل ہوئے‘‘۔ سخن گوئی فرحت بخش ہوتی ہے۔ اس طریقے سے ادب کو سمجھنے کے لئے ادب برائے ادب بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے ادب کا بنیادی مقصد زندگی کے حقائق کی عکاسی ہے۔ جب ادب زندگی کے حقائق کا عکاس بن جاتا ہے تو وہ زندگی کا رہنما بن کر ابھرتا ہے اور اس کی رہنمائی میں جو زندگی رونما ہوتی ہے، اس میں نکھار اور تازگی پائی جاتی ہے۔ اس کی روشنی میں ہم نجی اور اجتماعی زندگی کے ان پہلوؤں سے بھلی بھانتی واقف ہوجاتے ہیں، جن کی طرف ہمارا دھیان بہت کم جاتا ہے۔ ادب کو اسی وصف سے متصف کرنے کا پیغام۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین نے دیا اور بہت حد تک وہ اس مقصد میں کامیاب رہے۔ پریم چند کی تخلیقات ادب برائے زندگی کی بہترین مثال ہیں۔تقابلی ادب در اصل ایک ہی موضوع پر لکھے گئے مختلف زبانوں کے ادب کا مطالعہ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک موضوع پر مختلف زبانوں کے ماہرین کے سوچنے کا انداز اور زاویہ نظر کیا ہے۔ کہاں کہاں دونوں کی سوچ ملتی ہے اور کہاں کہاں دونوں میں فرق ملتا ہے اور یہ فرق کتنا معنی خیز ہے، اس کی نشاندہی سے ادب ثروت مند ہوجاتا ہے۔ تقابلی مطالعہ کے ذریعہ ادبیات میں جو تعصبات پیدا کئے جاتے ہیں، اس کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ ترجمہ نگاری تقابلی ادب کا ایک اہم جزو ہوتا ہے۔اس سے مترجم اور مصنف کے درمیان ایک انس پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اس سے اتحاد اور یکجہتی کو فروغ ملتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک ہم آہنگ سوسائٹی کی طرف ہم بڑھ جاتے ہیں۔اسپین میں صدیوں تک عربوں کی حکمرانی رہی اور پندرہویں صدی کے آخر میں ان کی حکومت کا زوال ہو گیا۔ اس عروج و زوال کو اردو مصنفین نے کس طور پر دیکھا اور ان کی نگاہ میں عروج و زوال کے کیا کیا اسباب رہے، اس سلسلے میں بڑی دلچسپ معلومات سامنے آرہی ہیں۔
پروفیسر مجتبی حسین نے مقرر کے خیالات سراہتے ہوئے کہا کہ دوسری زبانوں کے مقابلے میں ابھی ہندستانی ادبیات کو بہت کچھ سیکھنا ہے، خاص طور سے جوادبی تحریکیں دوسری جگہوں پر بیس تیس سال سے چل رہی ہیں بلکہ پرانی ہوچکی ہیں، ان کا گہرائی سے مطالعہ کرکے یہ دیکھنا ہوگا کہ ہندستانی سماج کے لئے وہ کہاں تک relevantہیں۔ اس موقع پر طالب علموں نے بھی اپنی باتیں رکھیں اور مقرر کے خطاب کو سراہا۔