دہرے کردار کا کھلے عام اظہار

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 12th Jan.

ریاست بہار کے وزیر تعلیم ڈاکٹرچندر شیکھر نے نفرت اور محبت کے حوالے سےایک منفرد انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔مگر ڈاکٹر چندر شیکھر کے خیالات کو ویسے لوگ ہضم نہیں کر پا رہے ہیں، جو ایک طرف اظہار رائے کی آزادی کو اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں مگر دوسری طرف دوسروں کےاظہار رائے کو اپنی آستھا سے جوڑ کر ہنگامہ برپا کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں کرتے ہیں۔ابھی ان کے نشانے پر ڈاکٹرچندر شیکھرہیں ۔کوئی ان سے عوام سے معافی منگوانے کی ضد پر اڑا ہوا ہے تو کوئی انھیں بہار کابینہ سے بر طرف کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ایک سادھو نما شخص نے تو یہاں تک اعلان کر دیا ہے کہ جوکوئی ڈاکٹرچندر شیکھرکی زبان کاٹ کر لائے گا ، اسے دس کروڑ کا انعام دیا جائے گا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ ’’میں نے جو کچھ بھی کہا ہےوہ صحیح کہا ہے۔لہٰذا، میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔‘‘
11 جنوری کو نالندہ اوپن یونیورسٹی (این او یو) کی 15ویں کانووکیشن تقریب منعقد تھی۔تقریب میں وزیر تعلیم ڈاکٹر چندر شیکھر بھی شریک تھے۔ جب انھیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا تو انھوں نے ’’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے‘‘ والے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ’ ’منوسمرتی ‘، ’ رام چرتمانس ‘ اورگولوالکر کی ’’ بنچ آف تھاٹس ‘‘ نفرت پھیلانے والی کتابیں ہیں ۔نفرت ملک کو عظیم نہیں بناتی ہے ،محبت ملک کو عظیم بناتی ہے۔انھوں نے بر سبیل تذکرہ یہ بھی کہہ دیا کہ’’ رام چرت مانس‘‘ دلتوں، پسماندوں اور خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتا ہے۔ ’’منوسمرتی‘‘ نے بھی سماج میں نفرت کا بیج بویا تھا، اسی لیے آئین کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اس کتاب کو جلایا تھا اور اس لئے جلایا کیونکہ یہ دلتوں اور پسماند طبقات کے حقوق چھیننے کی بات کرتی ہے………‘‘ ان خیالات کے اظہار کے لئےراشٹریہ جنتا دل سے تعلق رکھنے والے وزیر تعلیم ڈاکٹرچندر شیکھرکو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔’’کٹر ہندتو‘‘ کے حامی ان کے بیان کو ہندو آستھا سے جوڑ کر اپنے مذہب کی تذلیل کرنے والا بیان بتا کراپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میںلگے ہوئے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں، جنھوں نے ایک طرف بہار میں چل رہے کاسٹ بیسڈ سروے کے کام کو سماج میں ذات پات کا بھید بھاؤ پیدا کرنے والا غیر آئینی عمل قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے تو دوسری طرف سماج’’برہمن، شتری، وشیہ اور شودر‘‘ نام کے طبقات میں بانٹنے والی ’’ منوسمرتی‘‘ کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
واضح ہو کہ وطن عزیز کا ایک بڑا طبقہ آج بھی ذات پات کے برہمنوادی نظام کی لعنت میں مبتلا ہے۔ مہار ذات میں پیدا ہونے والے بھیم راؤ امبیڈکر بھی ذات پات کی تفریق اور فرقہ وارانہ منافرت کی آنچ سے نہیں بچ سکے تھے۔ اچھوت ذات میں پیدا ہونے کی وجہ سے وہ کس قدر نا انصافیوں کے شکار رہے، پڑھا لکھا طبقہ اس بات کو اچھی طرح سےجانتا ہے۔ چونکہ بابا صاحب نے ذات پات کی ٹیس کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا تھا، اس لیے انہوں نے اس کے خاتمے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے لوگوں میں بیداری مہم چلائی، احتجاج کیا اور ذات پات کے نظام اور اچھوت پر بہت سی کتابیں بھی لکھیں، جو بہت پڑھنے کے قابل ہیں۔اپنی اس مہم کے سلسلے میں انہوں نے’’منوسمرتی‘‘ کی کاپیاں جلا کر ایک علامتی پیغام بھی دیا۔وہ 25 دسمبر، 1927 کا دن تھا ،جب ڈاکٹر امبیڈکر نے مہاراشٹر کے کے کولابا (اب رائے گڑھ) ضلع میں واقع مہاد گاؤں میں اپنے حامیوں کے ساتھ’’منوسمرتی‘‘ کو سر عام نذر آتش کر دیا۔بتایا جاتا ہے کہ ان کے کئی ساتھیوں کے ساتھ ساتھ برہمن ذات کے گنگادھر نیل کنٹھ سہسر بدھے بھی موقع پر موجود تھے۔
بھیم راؤ امبیڈکر کی خدمات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’منو سمرتی‘‘ کو نذر آتش کرنے سے پہلے زمین میں چھ انچ گہرا اور ڈیڑھ فٹ مربع گڑھا کھودا گیا۔ اس میں صندل کی لکڑی ڈالی گئی۔گڑھے کے تین طرف بینر لگائے گئے۔ایک بینر پر لکھا تھا ’’منوسمرتی کی دہن بھومی‘‘ ، دوسرے پر لکھا تھا’’چھواچھوت کا ناش ہو‘‘اور تیسرے بینر پر لکھا تھا’’ برہمنواد کو دفن کر و‘‘۔ 25 دسمبر، 1927 کو صبح 9 بجے ڈاکٹر امبیڈکر، سہسترابدھے اور دیگر چھ دلت سنتوں نے ’’منوسمرتی‘‘ کا ایک صفحہ پھاڑ کر آگ سے لہکتے ہوئے گڑھے میں ڈالتے گئے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا تھاکہ اب بھارت کی سر زمین سے ’’منوادی نظام ‘‘ کا خاتمہ ہمیشہ کے لئے ہو رہا ہے۔اس کے باوجود آج بھی کچھ لوگ ہمارے ملک میں ایسے ہیں، جو دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والوں کی کھلے عام تذلیل کرتے ہیں، انھیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اپنی اس حرکت کو بھارت کے آئین کے ذریعہ حاصل ’’اظہار رائے کی آزادی‘‘ سے جوڑتے ہیں، لیکن جب کسی دوسرے نظریہ کے حامل وزیر تعلیم ڈاکٹرچندر شیکھر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے تو ان کی زبان کاٹنےوالے کو دس کروڑ روپئے بطور انعام دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ملک کے عام لوگ اس اعلان کو دہرے کردار کا کھلے عام اظہار مانتے ہیں۔