سبھی لا جواب ہیں

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 11th Jan.

ریاست بہار کے لوگوں کا کاسٹ بیسڈ سروے یا ذات پر مبنی مردم شماری کا کام 7 جنوری سے ہی شروع ہوگیاہے۔پہلے مرحلے میںتمام گھرو ں کی گنتی ہوگی ۔ایک اندازے کے مطابق گھر شماری کے دوران لگ بھگ 58.90 گھروں تک پہنچنے ، گھروں کے مکھیا کے نام رجسٹر میں درج کرنے اور سبھی گھروں کے لئے ایک یونک نمبر الاٹ کرنے کا نشانہ ہے۔ پہلے مر حلے کا کام 21 جنوری تک پورا کرنے کا پلان ہے۔اس کے بعد دوسرے مرحلے کا کام شروع ہوگا۔ دوسرے مرحلے کا کام یکم اپریل سے 30 اپریل تک چلے گا۔اس کام میں تقریباََ 18.5 لاکھ عملہ لگائے گئے ہیں۔
بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کی شروعات جس دن سے ہوئی ہے اسی دن سے سیاست کا بازار بھی گرم ہے۔ مرکز کے موقف سے الگ ہٹ کربھارتیہ جنتا پارٹی کی بہار اکائی شروع میںاس مردم شماری کے حق میں تھی، لیکن ریاست کی حکومت سے الگ ہونے کے بعد وہ اس کی مخالفت میں میدان میں اتر آئی ہے۔بی جے پی کو یہ مردم شماری بھارت کے آئین کےخلاف نظر نہیں آ رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس مردم شماری سے متعلق، ریاستی حکومت کے فیصلے کے خلاف ایک عرضی سپریم کو رٹ میں بھی دائر کی جا چکی ہے۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا نوٹیفکیشن غیر آئینی ہے۔اس سے سماج میں بھید بھاؤ پیدا ہوگا۔ نالندہ کے رہنے والے اکھلیش کمار نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ملک میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کرنا غیر معقول اور غیر منصفانہ ہے۔ چنانچہ پی آئی ایل کے ذریعہ ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے سے متعلق حکومت بہار کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کرنے اور عہدیداروں کو اس پر کارروائی کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔عرضی میں یہ میں الزام لگایا گیا کہ 6 جون، 2022 حکومت بہار کے ذریعہ کو جاری کردہ نوٹیفکیشن بھارت کے آئین کی آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔اس آرٹیکل کے ذریعہ قانون کا مساوی تحفظ فراہم کیا گیاہے۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ حکومت بہار کے محکمہ جنرل ایدمنسریشن کے ذریعہ جا ری نوٹیفکیشن غیر قانونی، من مانی، غیر منطقی اور غیر آئینی ہے۔
دوسری طرف ذات پر مبنی مردم شماری فیصلےکے حامیوں کا ماننا ہے کہ اس کاسٹ بیسڈ سروےسے پتہ چلے گا کہ بہار میں کتنی ذاتیں رہ رہی ہیں۔ ان کی معاشی اور سماجی حیثیت کیا ہے؟ کاسٹ بیسڈ سروے کے بعد ریاستی حکومت کےپاس ٹھوس اور سائینٹفک اعداد و شمار دستیاب ہو جائیں گے۔اسی کے مطابق ضروری اور فلاحی اسکیمیں بنائی جائیں گی۔اور جو برادریاں ہمہ جہت ترقی کے سفر میں کسی وجہ سے پیچھے چھوٹ گئی ہیں، انھیں اوپر اٹھا نےکی کوشش کی جائے گی۔
جو لوگ بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کی محالفت کر رہے ہیں، انھیںبہار کے ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو نے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ڈپٹی سی ایم کے مطابق بہار میں ذات کا سروے کیا جا رہا ہے۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں۔ ذات کی بنیاد پر مردم شماری مرکزی حکومت کر سکتی ہے۔ ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ اسی لیے بہار میں ذات کا سروے کیا جا رہا ہے۔ اس میں تمام ذاتوں کا سروے کیا جائے گا۔ اس سے پتہ چلے گا کہ کس ذات کا حصہ کیا ہے۔ یہ سروے پیچھے چھوٹ گئےلوگوں کی ترقی کو تیز کرے گا۔ جب تک یہ معلوم نہیں ہو گا کہ کس ذات کا حصہ کیا ہے، ان کی ترقی ٹھیک سے نہیں ہو گی۔ ایسے میں ذات کا سروے کیا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس ذات سے متعلق کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ ذات پر مبنی اس سروے میں ہم تمام ذاتوں کی معاشی بنیادوں کا بھی سروے کیا جا رہا ہے ۔ ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون سی ذات کس معاشی حالت میں ہے۔ اس کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ اسی کی بنیاد پر ترقی ممکن ہو گی۔ ہمیں ترقی کے لیے سائنٹفک ڈیٹا کی ضرورت ہے۔
اِدھربہار کی سیاست پر نظررکھنے والوں کامانناہے کہ ریاست میں کاسٹ بیسڈ سروے کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جو لوگ کل تک اس کی حمایت کر رہے تھے وہی لوگ اسے آج غیر آئینی بتا رہے ہیں۔ حالانکہ مخالفت کرنے والوں کو یہ پتہ ہے کہ ہمہ جہت ترقی کی معقول منصوبہ بندی کے لئے ئنٹفک ڈیٹا کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ایک ایک گھر تک ترقی کی روشنی نہیں پہنچ سکتی ہے۔ایسے میں بہار کے ڈپٹی سی ایم کا یہ سوال حق بجانب ہے کہ ’’ذات پر مبنی مردم شماری کیا غلط ہے؟ اگر ذات پات پر مبنی سروے میں خامی ہے تو پھر ہندو مسلمانوں کا شمار کیوں کیا جاتا ہے؟ ایس سی اور ایس ٹی سے تعلق رکھنے والوں کی گنتی کیوں ہوتی ہے ؟ جانور کیوں گنے جاتے ہیں؟ ظاہر ہے، کاسٹ بیسڈ سروے کے مخالفین کے پاس اس طرح کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔سبھی لا جواب ہیں۔
******************