سردی میں بھی گرمی کا احساس

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 10th Jan.

کڑاکے کی اس سردی میں بھی دہلی میں انتظامی اختیارات کو لے کر ایل جی اور سی ایم کے درمیان کی گرماہٹ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں کے درمیان روز بروز کی بڑھتی ہوئی گرمی اب خط و کتابت کی زبان میں بھی نظر آنے لگی ہے۔دونوں ایک دوسرے پر طنز کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ جب لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ نے 9 جنوری کو وزیر اعلی اروند کیجریوال کو خط لکھا تھا تو انہوں نے اس کی شروعات بالکل طنزیہ انداز میں کی تھی۔ ایل جی کو لکھے جوابی خط میں کیجریوال نے لکھا تھا، ’’آپ نے اپنے خط کے آغاز میں طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ انتخابی مہم کے بعد میں نے شہر میں انتظامیہ کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی ایک قومی پارٹی ہے اور اس کا قومی کنوینر ہونے کی وجہ سے مجھے انتخابی مہم کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں جانا پڑتا ہے۔ جس طرح وزیر اعظم، وزیر داخلہ کے علاوہ یوگی آدتیہ ناتھ، شیوراج سنگھ چوہان اور پشکر سنگھ دھامی جیسے وزرائے اعلیٰ گجرات اور دہلی کے انتخابات کے وقت اپنی پارٹی کے لیے مہم چلا رہے تھے۔‘‘
ایل جی ونے کمار سکسینہ وزیر اعلیٰ کو لکھا ہے کہ پچھلے کچھ دنوں میں آپ کی طرف سے مجھے کئی خط موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں آپ کی تعریف کرنا چاہوں گا کہ آپ نے انتظامیہ کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے۔ دہلی کے کثیر سطحی انتظامی نظام اور اس کے لیے بنائے گئے آئینی دفعات اور قوانین کی پیچیدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ایل جی نے اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ وزیر اعلیٰ اب اس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ایل جی نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ دہلی میں انتظامیہ کو چلانے والی دفعات کی سپریم کورٹ نے بھی کئی بار تشریح کی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ساز اسمبلی، ریاستی تنظیم نو کمیشن اور پارلیمنٹ میں بھی سنجیدہ بات چیت ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہی یہ دفعات بنائی گئی ہیں، جو اپنے آپ میں بالکل واضح ہیں۔
ایل جی نے وزیراعلیٰ کو یاد دلاتے ہوئے لکھا کہ اکتوبر تک ہم باقاعدگی سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ لیکن اس کے بعد آپ نے ریاستی اسمبلی انتخابات اور ایم سی ڈی انتخابات کی مصروفیت کی وجہ سے ملاقات کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ اب جب کہ انتخابات ختم ہو چکے ہیں، دہلی کے عوام کے مفاد میں تمام مسائل پر کھل کر بات کرنے اور تنازعات سے پاک انتظامیہ چلانے کے لیے ایسی میٹنگیں دوبارہ شروع کرنا اچھا ہوگا۔ ایل جی نے امید ظاہر کی کہ اس سے انتظامی کام میں مزید بہتری آئے گی۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سے کہا ہے کہ وہ باہمی سہولت کے مطابق ملاقات کی تاریخ طے کریں۔
ایک طرف دہلی کے ایل جی ونے کمار سکسینہ نے سی ایم اروند کیجریوال کو خط لکھ کر ان پر طنز کیا ، تو دوسری طرف سی ایم نے بھی طنز کا جواب طنزیہ انداز میں دینے میں کوئی وقت نہیں لیا۔ بات چیت کے لیے مدعو کرنے پر ایل جی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے اپنے خط میں کہا ہےکہ میں آپ سے ملنے ضرور آؤں گا، لیکن گزشتہ چند دنوں سے ایک اہم بحث شروع ہوگئی ہے۔ اس کا بھارت کی جمہوریت پر خاصا اثر پڑ رہا ہے۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ پہلے ان مسائل پر اپنا موقف عام کریں۔
وزیراعلیٰ نے دہلی کی منتخب حکومت سے مشاورت کے بغیر ایل جی کی جانب سے ایم سی ڈی میں 10 نامزد کونسلروں کا تقرر، میئر کے انتخاب کے لیے پریزائیڈنگ افسر کا انتخاب، حکومت سے مشاورت کے بغیر حج کمیٹی کی تشکیل اور عہدیداروں کو براہ راست احکامات دینے جیسی کارروائی کی یاد دلا کر نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا ہے کہ دہلی کے عوام نے بھی اس کی سخت تنقید کی ہے۔وزیراعلیٰ نے ایل جی سے کہا کہ وہ واضح کریں کہ کیا آپ کا موقف ہے کہ قانون میں جہاں بھی’’ ایڈمنسٹریٹر/لیفٹیننٹ گورنر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، وہاں منتخب حکومت کو نظرانداز کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر براہ راست افسران سے ڈیل کریں گے اور ان کے محکموں کا انتظام کوچلائیں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر منتخب حکومت کیا کرے گی؟ کیا یہ سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کے خلاف نہیں ہوگا، جن میں بارہا کہا گیا ہے کہ ایل جی تمام منتقل شدہ موضوعات پر وزراء کی کونسل کی مدد اور مشورے کا پابند ہے؟ آخر میں کیجریوال نے لکھا کہ ہم ان تمام مسائل پر نجی طور پر چائے پر بات کر سکتے تھے، لیکن یہ سوالات دہلی اور پورے ملک کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس لیے اس پر ہمارے درمیان عوامی بحث زیادہ مفید ہو گی۔ وزیراعلیٰ نے ایل جی سے کہا ہےکہ وہ ان کے جواب کا انتظار کریں گے۔
بہر حال دہلی کے حسب دستور انتظامی امور کے حوالےسے دہلی کے ایل جی اور وزیر اعلیٰ کے درمیان جاری یہ’’ طنزیہ جنگ‘‘ کب ختم ہوگی ، اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے۔دہلی کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ دونوں طرف سے جاری خط و کتابت کےانداز سے کڑاکے کی اس سردی میں سیاسی گرمی کا احساس ہونے لگا ہے۔

**************