Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 9th Jan.
اوپندر ناتھ اشک ،الہ آباد
مجھے غلام سرور صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہے ۔ان کے ایک دو خط جو مجھے اپنے بڑے پوتے کی وساطت سے موصول ہوئے ان سے وہ سخن شناس ،ادب نواز اور نہایت درد مند انسان لگتے ہیں اور ان سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔
میری اہلیہ گزشتہ چالیس برسوں سے پرکاشن کا کام دیکھتی ہے۔ مزے سے کام چل رہا تھا ،مگر اچانک فالج کےزد میں آ گئی۔ اب اٹھ بیٹھی ہے، لیکن پہلے کی طرح ادارے کا کام تو نہیں دیکھ سکتی ۔ایسے دگرگوں حالات میں میرے بڑے پوتے نے بی ۔ اے کی پڑھائی چھوڑ کر ادارے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی ۔وہ دلی گیا ۔
میں نے عارف محمد خاں کے نام چٹھی دے دی تھی ۔وہ ان سے ملا ۔وہ میرے نام اور کام سے واقف تھے ۔ازراہ کرم ! انہوں نے جناب غلام سرور صاحب کے نام ایک سفارشی خط دیا ۔جسے لے کر بہت سرور صاحب سے ملا ۔سرور صاحب نے بڑے پیار اور خلوص سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا ۔یہاں تک کہ اسے اپنے ساتھ کھانا کھلایا اور کہا کہ وہ بے روک ٹوک ان سے ملے۔ یہی نہیں اپنے گھر چیف منسٹر ( لالو پر ساد) کو مدعو کرکے اس کی ملاقات کرادی ۔ان کی سفارش سے وزیراعلی نے اردو ہندی کی کچھ کتابوں کی چار سو کاپیاں خریدنے کا حکم صادر کردیا ۔
ظاہر ہے کہ میرا پوتا نہایت خوش اور غلام سرور کی تعریف میں رطب اللسان واپس آیا۔ اس نے مجھے آرڈر دکھایا ۔میں نے کہا بہار میں کبھی ساڑھے تین لاکھ کا آرڈر ایسے ہی نہیں ملتا ۔پھر وہ کچھ دنوں بعد پٹنہ واپس گیا ۔چٹھی اس نے متعلقہ افسران کو سونپ دی۔ انھوں نے فنانس کی دشواریوں کا حوالہ دیا اور رکھ لیا اور اسے لوٹا دیا ۔پھر وہ غلام سرور صاحب سے ملا۔ انہوں نے کہا بیٹے یہ دوسروں کے ہاتھ کی بات ہے ۔میں جو کر سکتا ہوں، تمہارے لیے ضرور کروں گا اور پہلی مرتبہ انہوں نے اسمبلی کی لائبریری کے لیے پچیس ہزار کا آرڈر دیا ،تاکہ محنت کا کچھ نہ کچھ صلہ مل جائے ۔میرا بیٹا اسی (وزیر اعلی کے)آرڈر کے لیے تین سال تک بار بار پٹنہ جاتا رہا اور سرور صاحب نے بے انتہا کوشش کی ۔لیکن وہ آرڈر تو ایجوکیشن سکریٹری کے پاس تھا اور وہ کرسی پر رکھ کر اس پر بیٹھ گئے تھے ۔وہ کیسے ملتا ؟ افسر شاہی اور سرکاری نظام کی بے نیازی کا شکار ہو گیا ۔
بچے کی پریشانی دیکھ کر سرور صاحب نے پھر اسے ذاتی طور پر اسمبلی کی لائبریری کے لیے پندرہ ہزار روپے کا آرڈر دلوایا تاکہ اس کے آنسو قدرے پونچھ جائیں۔
سرور صاحب نے میرے اور میرے پریوار کے لئے جو کیا میں اس کے لئے دل سے ان کا مشکور ہوں ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے بچے کی دل شکنی نہیں ہونے دیانہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی ۔
جس سے اسے آگے کام کرنے کی ترغیب ملی ۔اسی وجہ سے وہ پچھلے برس سے صحیح طور پر تگ ودو میں مصروف ہے ۔کام کچھ آگے سر کا ہے ۔قرض قدرے سمٹا ہے ۔اسی طرح کام کرتا رہے گا اور خدا نے چاہا تو ہم عنقریب سرخرو بھی ہو جائیں گے ۔
غلام سرور صاحب کا میں بے حد مشکور ہوں ۔میرا پورا پریوار ان کا شکر گزار ہے ۔میں نے کوشش کی تھی کہ مجھے پٹنہ بلایا جائے گا تاکہ میں سرور صاحب کے نیاز حاصل کر سکوں لیکن مجھے کامیابی نہیں ملی ۔
درحقیقت خدا بخش لائبریری کے ڈائرکٹر جناب عابد رضا بیدار صاحب چاہتے تھے کہ میں خدا بخش لائبریری جاؤ ں۔ وہ مجھے لائبریری کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرائیں ۔میرا ویڈیو کیسے تیار کریں گے اور میرے آنے جانے کا خرچ بھی اپنے ذمہ لیں گے ۔ لیکن وہ خود مدعو نہیں کرنا چاہتے تھے اورمیں بن بلائے نہیں جاسکتا تھا ۔
پھر اچانک ایک دن وہ دیے جلنے کے بعد آئے۔ میں نے کہا۔ میں برسوں سے پٹنہ نہیں گیا ہوں ۔آپ کوئی تقریر یا لکچر رکھ لیجیے۔ سرور صاحب سے افتتاح کرائیے۔ میں ان کے نیاز بھی حا صل کر لوں گا اورپٹنے میری آمد کی اہمیت بھی بڑھ جائے گی۔ لیکن وہ ٹال گئے۔ میں چاہتا تھا کہ بیدار صاحب بلاتے ۔غلام سرور صاحب کو بھی مدعو کرتے اور میں جاتا اور ایسا رنگ باندھتا کہ لوگ ہمیشہ یاد رکھتے۔ مگر یہ نہ ان کی قسمت میں تھا نہ میری۔
سرور صاحب سے ملنے کی بڑی آرزو ہے۔ استاد ذوق کے مقطع کو ذرا تصرف سے لکھوں تو کہنا چاہوں گا۔
اے ذوق شناسائے سخن ،دل کے غنی کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے