قرآن کی یہ باتیں جانئے،عمل میں لائیے،عذاب سے بچئے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 19th Jan.

ابونصر فاروق
جنت والے اور دوزخ والے ایک جیسے نہیں ہو سکتے:
’’دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔‘‘ (الحشر:۲۰)دنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک جنت والے اوردوسرے جہنم والے۔
کچھ انسان جہنم ہی کے لئے پیدا ہوئے ہیں:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے،اُن کے پاس دل ہیں مگر وہ اُن سے سوچتے نہیں، اُن کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں،اُن کے پاس کان ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گئے گزرے،یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔‘‘(اعراف:۱۷۹) ’’……کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیںاور اُن کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے۔(محمد:۱۲)
جہنم کے لئے پیدا ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ اللہ یا فیصلہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ یہ لوگ ہزار نصیحتوں اورخیر خواہی کے بعد بھی دولت کی لالچ اور دنیاکی رنگینیوں کو نہیں چھوڑیں گے۔آخرت کی ان کو ذرابھی فکر نہیں ہوگی۔اللہ کو ماننے کادعویٰ کریں گے لیکن اُس کے احکام کو نہیں مانیں گے۔رسول اللہﷺ سے محبت کا دعویٰ کریں گے لیکن اُن کی حیات اور احکام کی پیروی نہیں کریں گے۔ان کا یہ طور طریقہ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا۔اس لئے وہ کہہ رہا ہے کہ یہ دنیا میں جانوروں کی طرح جی رہے ہیں اور جانوروں کے لئے جنت نہیں بنائی گئی ہے۔آگے کی آیت میں اس بات کو زیادہ واضح کیا گیا ہے۔
جس نے جیسا بننا چاہا اللّٰہ نے اُس کوویسی ہی توفیق دی:
’’او ریہ کہ انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے۔‘‘(نجم:۳۹)
اس آیت میں پھر وہی حقیقت بتائی جا رہی ہے کہ جن لوگوں نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دے دی اور کافر ،ظالم اور فاسق بن گئے ، وہ اپنی تقدیر کی وجہ سے ایسے نہیں بنے بلکہ یہی اُن کی چاہت تھی اور اسی کو اُنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ دنیا میں ہر انسان کو دونوں راستے دکھا دیتا ہے اور پھر آزادی دے دیتا ہے کہ جدھر چاہے جائے۔
اللّٰہ کی نافرمانی کرنے والے مسلمان مجرم ہیں:
’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔(المائدہ:۴۴)جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔(المائدہ:۴۵)جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔‘‘(المائدہ:۴۷)اور اُس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اُس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ اُن سے منہ پھیر لے،ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے ۔‘‘ (السجدہ:۲۲)
اُن کے جہنمی بننے کا سبب یہ ہوا کہ یہ ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے اور خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی قرآن نہ سمجھ کر پڑھنا چاہتے ہیں اور نہ اُس کی ہدایات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔اپنے اس عملی رویے کی وجہ سے یہ کافر، ظالم اور فاسق بن گئے۔قرآن کا علم رکھنے والے خیر خواہی کے جذبے سے اُن کو نصیحت کرتے رہے کہ قرآن معنی کے ساتھ سمجھ کر پڑھو، لیکن یہ لوگ اُن جاہل، فریبی ، مکار ، دنیادار نقلی عالموں کے چکر میں پڑ گئے جن کا مقصد اُن کو گمراہ کر کے اور اُن کے بے وقوف بنا کر اُن سے دنیا کمانی تھی۔
’’در حقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔جس نے دیا (اللہ کی راہ میں )اور ڈرا(اپنے رب سے)اور بھلائی کو سچ مانا۔اُس کو ہم آسان راستے کے لئے سہولت دیں گے۔اور جس نے بخل کیا اور(اپنے خدا سے )بے نیازی برتی۔اور بھلائی کو جھٹلایا۔اُس کو ہم سخت راستے کے لئے سہولت دیں گے۔‘‘(سورۂ و الیل:۴تا۷)یعنی ایک کے لئے فرماں برداری کرنا آسان ہوگا اور دوسرے کے لئے نافرمانی کرنا آسان ہوگا۔ حضرت علی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں نہ لکھ دیا گیا ہو۔ حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا کہ ہم لکھے ہوئے پر بھروسہ کر کے عمل کرنا چھوڑ دیں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا عمل کرو! کیونکہ جس بات کے لئے اُس کو پیدا کیا گیا ہے وہ اُس کے لئے آسان کر دی گئی ہے۔ اگر وہ سعادت مندوں میں سے ہے تو نیک اعمال اُس کے لئے آسان ہیں اور اگر وہ شقیوں میں سے ہے تو برائی اُس پر آسان ہوگی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اللّٰہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا:
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو کسی شک کے بغیر پہچانتے ہیں جیسے اُن کو اپنے بیٹوں کو پہچاننے میں کوئی شبہہ نہیں ہوتا، مگر جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈال دیا ہے وہ اسے نہیں مانتے۔‘‘(انعام:۲۰) ’’ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔‘‘(انعام:۲۱)
یہ ایسے مسلمان ہیں جو قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔کہتے ہیں کہ قرآن کے اللہ کی کتاب ہونے میں اُن کو شک نہیں ہے، مگر یہ قرآن کے احکام پر عمل نہیں کرتے، یہ اُن کا گھاٹے کا کاروبار ہے اور اُن کی اس روش کے سبب اللہ نے ایک مدت تک مہلت دینے کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اب اُن کو دنیامیں ہدایت نہیں ملے گی اور دنیا اورآخرت دونوں جگہ کامیابی نہیں ملے گی۔
علم والے گدھے بن گئے:
’’جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر اُنہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے، جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بد تر مثال ہے اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘(سورۂ الجمعہ:۵)
مسلمانوں میں ایک سے ایک پڑھے لکھے قابل اور دانشور کہے جانے والے لوگ ہیں ، لیکن اللہ کے نزدیک ان کی حیثیت گدھوں جیسی ہے جس پر چاہے کتنی ہی قیمتی کتاب لاد دیجئے گدھا گدھا ہی رہے گا انسان نہیں بنے گا۔اللہ نے اُن کو دنیا میں پڑھنے لکھنے کا موقع دیا، جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت دی،انہوں نے دنیا کے بیشمار علوم پڑھے،بچپن میں قرآن بھی اُن کے والدین نے پڑھایا ،اور جب یہ بڑے ہوئے تو اُن میں سے کچھ نمازی بھی بن گئے اور قرآن بھی پڑھتے رہے ،لیکن ہدایت سے محروم رہے اور اب پڑھے لکھے جاہل کے زمرے میں آ کر ایسے گدھے بن گئے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہیں۔تصور کیجئے کیسی گندی مثال ہے ا ن کی۔
جہنم والے دنیا میں بندر اور سور جیسے ہیں:
’’پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا۔ہم نے اُنہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دُھتکارپھٹکار پڑے۔اس طرح ہم نے اُن کے انجام کو اُس زمانے کے لوگوں اوربعد میں آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت بنا کے چھوڑا۔ ‘‘(البقرہ: ۶۵/۶۶)پھر کہو کیا میں اُن لوگوں کی نشاندہی کروں جن کا انجام خدا کے یہاں فاسقوںکے انجام سے بھی بد تر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا،جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے،جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی۔اُن کا درجہ اور بھی زیادہ براہے او وہ سواء السبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ ‘‘(المائدہ:۶۰)
بنی اسرائیل(یہودی) قوم کے کچھ لوگ ماہی گیری کا پیشہ کرتے تھے۔ اُن کے نبی نے کہا کہ سنیچر کے دن تم صرف اللہ کی عبادت کرتے رہو، دنیا کاکوئی کام مت کرو یہاں تک کہ کھانا بھی مت پکاؤ۔ایسا حکم اُن کی نافرمانی کے سبب دیا گیا تھا۔مگر اُن کو ہر حکم کی نافرمانی کرنے کی عادت تھی، اس لئے اس حکم کو بھی اُنہوں نے نہیں مانا اور پھر اُن پر اللہ کاعذاب آ گیا اور اُن کی یہ حالت ہو گئی۔ یہ معاملہ صرف اُن کے ساتھ نہیں ہوا، بلکہ دنیا میں اب جو قوم یا فرداپنے نبی کی نافرمانی کرے گا، وہ انسان ہوتے ہوئے بھی عادات و اطوار اور عقل و سمجھ کے لحاظ سے بندر اور سور بنا دیا جائے گا۔بندر کی پہچان ایک انتہائی لالچی جانور جیسی ہے اور سور کی پہچان گندگی میں رہنے والے جانور جیسی ہے۔یعنی اللہ کے باغی اور نافرمان بندے بندر کی طرح لالچی ہیں اور سور کی طرح گندی طبیعت اور عادت والے ہیں۔اس وقت انتہائی تعلیم یافتہ اور سرمایہ دار لوگ حد سے زیادہ لالچی بھی ہیں اورحرام کھانے والے گندے بھی ہیں۔
قرآن کا عالم کتا بن گیا:
’’اوراے نبی، ان کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا، مگر وہ اُن کی پابندی سے نکل بھاگا۔آخر کار شیطان اُس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔‘‘ (الاعراف:۱۷۵)’’اگر ہم چاہتے تو اُسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس کے پیچھے ہی پڑا رہا، لہذا اُس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اُس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اُسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔تم یہ حکایات اُن کو سناتے رہو شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں۔‘‘(الاعراف:۱۷۶)
دین کا علم دینی درسگاہوں میں اس لئے دیا جاتا ہے کہ یہاں سے پڑھ کر جو نوجوان نکلیں وہ دنیا داروں کو دین کی تعلیم دیں اور اُن کو کافرو فاسق اور ظالم بننے سے بچائیں اور خود انتہائی سادہ معمولی زندگی گزار کر دنیا والوں کے سامنے پیارے نبی ﷺ کی زندگی کا نمونہ پیش کر کے اُس کو اپنانے کی ترغیب دیں۔مگر یہ عالم ، فاضل اور مولانا کہے جانے والے لوگوں نے اپنا اصل فرض نبھانے کی جگہ دنیا داروں کا طور طریقہ اپنا لیا اور اُن ہی جیسے بننے کے چکر میں پڑ گئے۔تب اُنہوں نے جو سنگین گناہ کیا تھا اللہ نے اُس کی عبرت ناک سزا اُن کو یہ دی کہ اب یہ طبقہ کتوں جیسی زندگی گزار رہا ہے۔دولت اور دنیا کے عیش و عشرت کے لئے اُن لوگوں کے تلوے چاٹ رہا ہے، جو اللہ ،اُس کے نبی اور اُس کے دین کے دشمن ہیںاور اُ س کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں۔اس طبقے کی خود اُس کی ملت میں اب کوئی عزت اور آبرو نہیں رہی۔
جنت میں جانے والوں کی پہچان کیا ہے:
’’جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین ۔کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔‘‘ (النساء: ۶۹)حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔‘‘(الحجرات:۱۵) اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (الصف:۴)
مگر وہ لوگ (نافرمانی کے اس عیب سے بچے ہوئے ہیں)جو نماز پڑھنے والے ہیں۔(۲۲)جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔ (۲۳) جن کے مالوں میںسائل اور محروم کا۔(۲۴) ایک حق ہے۔(۲۵) جو روز جزا کو برحق مانتے ہیں۔(۲۶)جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ (۲۷)کیونکہ اُن کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئی بے خوف ہو۔(۲۸)جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(۲۹)سوااپنی بیویوں یا اپنی مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میںان پر کوئی ملامت نہیں۔(۳۰)البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی حد سے آگے بڑھنے والے ہیں۔(۳۱)جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں۔(۳۲)جو اپنی گواہیوں میں سچارئی پر قائم رہتے ہیں۔(۳۳) اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔(۳۴)یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے۔(المعارج:۲۲تا۳۵)
ض اللہ سے مکمل وفاداری، اُس کی فرماں برداری، اُس کے ایک اشارے پر جان اور مال دونوں کو قربان کر دینا ہی سچے صحابہ کرام ؓ کی پہچان تھی۔قیامت تک سچے اور پکے، نیک اور صالح مسلمانوں کی پہچان یہی رہے گی۔جہنم والوں کے مقابلے میں جنت والے ان ہی خوبیوں سے پہچانے جائیں گے۔جو لوگ مسلمان ہو کر بھی دین اسلام پر ایمان نہیں لاتے یعنی اپنی زندگی میں شریعت کے احکام کی پیروی نہیں کرتے ، بلکہ کافر، مشرک،فاسق،فاجر، ظالم بن کر جی رہے ہیں،اُن کے اس جرم کی سزا اللہ کے یہاں یہ ہے کہ وہ دنیا میں بھی بے چین، پریشان،بیمار،خستہ حال اور بدنصیب بن کر زندگی گزاریں گے، اپنی اولاد کی خدمت اورمحبت سے محروم رہیں گے،قبر کے عذاب میں قیامت تک مبتلا رہیں گے اور آخرت میںہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلنے کی اُن کو سزا ملے گی۔
٭٭٭٭
8298104514