مایا وتی : اب صرف ووٹ بینک پر بھروسہ

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 16th Jan.

بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی ایک نہیں چاربار اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں۔لیکن گزشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد سے وہ ریاست کی سیاست میںبہت کمزور ہو گئی ہیں۔سیاست کے ایک حلقے میں اب انھیں ایک خاص پارٹی کی بی ٹیم کی سپریمو تک کہا جانے لگا ہے۔ 15 جنوری کو ان کا 67 واں یوم پیدائش تھا ۔اس موقع پر انھوں نے ایک بڑا اعلان کیا ۔اعلان یہ تھا کہ ان کی پارٹی آئندہ اسمبلی انتخابات اور 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ یعنی بی ایس پی اب اپنے بل بوتے پر انتخابی میدان میں اترے گی اور جیت درج کرے گی۔ وجہ کی پڑتال کرنے کے بعد یہی بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کی وجہ بی ایس پی کے ووٹ بینک پر منفی اثر پڑ تا رہا ہے۔ اس وجہ سے اب وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کی سیاست میں بہوجن سماج پارٹی تقریباً 25 فیصد ووٹ بینک کی سیاست کرتی رہی ہے۔ لیکن، 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد، پارٹی کی پوزیشن مسلسل خراب ہوتی گئی۔ سال 2007 میں، یوپی اسمبلی انتخابات کے وقت، مایاوتی نے پارٹی کے بہوجنوں کو سروجن میں تبدیل کرکے ریاست میں اکیلے اپنے دم پر اکثریت حاصل کر لی تھی۔ اس الیکشن میں بی ایس پی کے بنیادی ووٹ بینک دلت ، مسلم اور او بی سی کے ساتھ برہمن بھی ان سے جڑ گیا تھا۔مگر سیاست کی ان کی یہ ٹرننگ انھیں راس نہیں آئی۔ اس کےبعد دھیرے دھیرے وہ ریاست کی سیاست کے حاشئےپر چلی گئیں۔
مایا وتی کی پارٹی کو 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں متوقع کامیابی نہیں ملی، جو مذکورہ اسمبلی انتخابات کے تقریباً دو سال بعد ہوئے تھے۔ 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی نے 20 سیٹیں جیتی تھیں۔ اقتدار میں رہنے کے باوجود پارٹی ریاست میں تیسرے نمبر پر رہی۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس بی ایس پی سے آگے تھیں۔ تب سماجوادی پارٹی کو 23 اور کانگریس نے 21 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ 2007 کے یوپی انتخابات میں گیا جو برہمن ووٹ بینک بی ایس پی کے ساتھ تھا وہ 2009 میں کانگریس کے ساتھ چلا گیا اور سارا کھیل ہی الٹا ہوگیا۔ مایاوتی آج بھی اپنے دور حکومت (2007۔2012) میں ہونے والی ترقی اور امن و امان کی صورتحال کا ذکر کرتی ہیں، لیکن اپنی کارکردگی کو وہ اپنے ووٹ بینک میں تبدیل کر نے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد بی ایس پی نے کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا، لیکن خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ پنجاب انتخابات 2022 میں، بی ایس پی نے اکالی دل کے ساتھ اتحاد کیا تھالیکن پارٹی کو وہاں بھی کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ دیگر ریاستوں میں بھی پارٹی کو اتحاد کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مایا وتی نے اب اپنے ووٹ بینک کے درمیان ہی خود کومضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ کانشی رام نے بہوجن سماج کی مناسب سیاسی نمائندگی کی بات کرتے ہوئے بی ایس پی کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ اسی مقصد کے ساتھ آگے بڑھتے بھی رہے۔ لیکن، سال 2007 میں، مایاوتی نے اسی برہمن برادری کو اپنے ساتھ کر لیا تھا،جس کے منووادی نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے پارٹی بنائی گئی تھی۔مایا وتی کی اسی سیاسی چوک کی وجہ سے بہوجن مایا وتی سے بیزار ہو گئے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں صورتحال میں یکسر تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یوپی کی سیاست کا رخ پوری طرح سے بدل گیا۔ جب اونچی ذات اور او بی سی اکٹھے ہوئے تو سبھی تانے بانے بکھر گئے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی کو 19.60 فیصد ووٹ ملے تھے، لیکن پارٹی ایک بھی رکن اسمبلی منتخب نہیں کر سکی تھی۔2017 کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی اکیلے ہی میدان میں اتری تھی۔ 22.24 فیصد ووٹ ملے۔ لیکن، پارٹی کو اسمبلی میں صرف 19 نشستیں حاصل ہوئیں۔ پریشانی کے عالم میںمایاوتی نے اپوزیشن کی سیاست کرنے والی سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد اکھلیش یادو اور مایاوتی کے اتحاد کو ’’ببوا۔ بوا اتحاد‘‘ نام دیا گیا۔ لیکن، 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، اس اتحاد نے محض 15 ( ایس پی نے 5 اور بی ایس پی نے 10 )سیٹیں جیتیں۔یعنی سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی مایاوتی کے لیے الٹا ثابت ہوا۔ بی جے پی کو 49.6 فیصد یعنی تقریباً 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے سے نہیں روک سکی۔
سننے میں آ رہا ہے کہ مایاوتی نے اب اپنے بنیادی ووٹ بینک (دلت اور مسلمان) کو سنبھالنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ مغربی یوپی میں عمران مسعود جیسے لیڈروں کو سرگرم کیا گیا ہے۔’’ چلو گاؤ کی اور ‘‘ پروگرام کے ذریعے اپنے ووٹروں کو یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش ہونےوالی ہے کہ پارٹی اب اپنی پرانی شکل میں واپس آگئی ہے۔ مگر یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مایا وتی کے لوگ ان پر اب کتنا بھروسہ کر پاتے ہیں۔ویسے اب انھیںصرف اپنے ووٹ بینک پر ہی بھروسہ ہے۔
*************