کمزوری میں ہی مضبوطی مضمرہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 18th Jan.

ایک طرف راہل گاندھی پورے ملک میں کانگریس کے پاؤں کے نیچے کی زمین کو ہموار کرنے کی کوشش میں کنیا کماری سے کشمیر تک ’’ بھارت جوڑو پیدل یاترا‘‘ میں مصروف ہیں اور دوسری جانب پنجاب میں 2022 کے اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد وہاں کے کانگریسی لیڈروں کی باہمی بر تری کی جنگ جاری ہے۔پارٹی کے سینئر لیڈر بشمول کئی سابق وزراء بیزاری کے عالم میں پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔پارٹی چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھام لینے والے لیڈروں کی فہرست میں اب سابق وزیر من پریت بادل کا نام بھی شامل ہوگیا ہے، جنہوں نے گذشتہ بدھ کو کانگریس سے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیارکر لی تھی۔من پریت بادل سے پہلے کانگریس کے سابق ریاستی صدر سنیل جاکھڑ اور سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ پارٹی سے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں۔
ادھر بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر پنجاب میں اپنی زمین تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ سال پنجاب میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کتنی عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تب بی جے پی کے کھاتے میں صرف 2 سیٹیں آئی تھیں۔ ایسے میں پارٹی ابھی سے ہی اگلے لوک سبھا انتخابات کو لے کر سنجیدہ ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کو محض تین سیٹوں پر قناعت کرنی پڑی تھی۔پچھلی بار الیکشن اکالی دل کے ساتھ مل کر لڑا گیا تھا۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔ اس بار اچھے اچھے لیڈروں کی شمولیت کی وجہ سے ایک طرف جہاں بی جے پی پنجاب میں مضبوط ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے وہیں دوسری طرف لیڈروں کی بھگدڑ کے سبب کانگریس کمزور ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
واضح ہو کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے گزشتہ سال بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے اپنی پارٹی پنجاب لوک کانگریس کو بی جے پی میں ضم کرکے پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے چند دنوں پہلے اپنی ایک پارٹی بنائی تھی۔ کیپٹن نے ستمبر 2021 میں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد کانگریس پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسی طرح کانگریس کے سابق ریاستی صدر سنیل جاکھڑ نے بھی گزشتہ سال مئی کے مہینے میں کانگریس کو الوداع کہہ دیا تھا۔ وہ نئی دہلی میں جے پی نڈا کی موجودگی میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ جاکھڑ 2012-2017 تک پنجاب قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے تھے۔ سنیل جاکھڑ نے فلم اداکار ونود کھنہ کے انتقال کے بعد گورداسپور لوک سبھا سیٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ پنجاب میں کانگریس کے سینئر لیڈر کیپٹن امریندر سنگھ کے پارٹی چھوڑنے کے بعد سنیل جاکھڑ کے پارٹی سے علیحدگی کے بعد، یہ واضح ہو گیا تھا کہ پنجاب میں کانگریس کا قلعہ اب ڈھہنےہی والا ہے۔
کیپٹن امریندر سنگھ اور سنیل جاکھڑ کے بعد اب پنجاب کے سابق وزیر من پریت بادل نے بھی کانگریس سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ من پریت سنگھ بادل بدھ کو کانگریس پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے بعد مرکزی وزیر پیوش گوئل کی موجودگی میں بی جے پی میں شامل ہو گئے ۔ استعفیٰ دینے کے بعد من پریت سنگھ بادل نے کہا کہ ایک وقت تھا پنجاب بھارت کا چاند ہوا کرتا تھا ،لیکن آج پنجاب بہت پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی پنجاب کو پٹری پر لا سکتا ہے تو وہ پی ایم مودی اور ان کی ٹیم ہے۔
واضح ہو کہ پنجاب میں لوک سبھا کی 13 سیٹیں ہیں۔ یہ سیٹیں کسی بھی پارٹی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی خصوصی توجہ پنجاب پر ہے۔ بی جے پی کو معلوم ہے کہ اگر اس نے پنجاب نظر انداز کیا تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔کیونکہ پنجاب کو سنجیدگی سے نہیں لینے کی وجہ سے ہی اسے 2022 کے اسمبلی انتخابات میںاسے صرف 2 سیٹیں حاصل ہو سکی تھیں۔ ایسے میں پارٹی ابھی سے ہی لوک سبھا انتخابات کو لے کر سنجیدہ ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کے کھاتے میں تین سیٹیں آئی تھیں۔ اس کے بعد پارٹی نے اکالی دل کے ساتھ اتحاد میں اسمبلی الیکشن لڑا تھا، لیکن خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آ سکا تھا۔ ایسے میں بی جے پی نے پنجاب جیتنے کا پلان تیار کر لیا ہے۔اس پلان کے تحت بظاہر وہ جیسے جیسے خود کو مضبوط کر رہی ہے ویسے ویسے کانگریس کمزور ہو رہی ہے۔مگر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست سے کوئی بھی جماعت بہت پائیدار نہیں ہو سکتی ہے۔ جبکہ بی جے پی کی پالیسی سے الگ ہٹ کر کانگریس خود میں نئی توانائی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر بنیادی مسائل کے خلاف کانگریس کا بڑھتا ہوا قدم ہی اسے استحکام عطا کر سکتا ہے۔ بعض اوقات بظاہر کمزوری میں ہی مضبوطی مضمر ہوتی ہے۔
***********************