یہی ہے کامیابی کا راز

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 19th Jan.

 

نریندر مودی کابینہ میں ممکنہ ردوبدل اسی مہینے میں ممکن ہے۔ کابینہ کی تشکیل نو میں تاخیر کی وجہ سے وزیر بننے کی خواہش پالے لیڈروں میں کافی بے چینی ہے۔پہلے سنا جا رہا تھا کہ مکر سنکرانتی کے بعد کبھی بھی کابینہ میں توسیع ہو سکتی ہے۔لیکن مکر سنکرانتی کے ایک ہفتہ بعد بھی توسیع نہیں ہونے کی وجہ سے کچھ لوگوں کا فکرمند ہونا فطری ہے۔مگر دوسری طرف تاخیر کے سلسلے میںکہا جا رہا ہے کہ اس بار مرکزی کابینہ میںبڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ اس لئے اس سے پہلے ضروری ہوم ورک کرنے میں وقت لگ رہا ہے۔ تاخیر کی ایک دوسری وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کابینہ کی اگلی توسیع میں کم از کم نصف درجن سینئر وزراء کی چھٹی ہو جائے۔ انہیں حکومت کے بجائے تنظیم کا کام دیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی 2024 کے لو ک نسبھا انتخابات کے قبل زیادہ ترایسے نئے لیڈروں کو پارٹی کے تنظیمی امور اورمرکزی حکومت میں شامل کرنا چاہتے ہیں، جو حکومت اور پارٹی کا مستقبل کا چہرہ بن سکیں۔ اس طرح کابینہ میں مجوزہ ردوبدل کو نہ صرف حکومت بلکہ پارٹی کے لیے بھی بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے، جس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے تمام وزراء کو ایک اور بڑی ذمہ داری سونپی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ سماج کے تمام روشن خیال لوگوں سے رابطہ کریں اور انہیں مرکزی حکومت کی اسکیموں کے بارے میں بتائیں۔ خاص طور پر انہیں مرکزی حکومت کی طرف سے غریبوں، دلتوں اور قبائلیوں کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کے بارے میں جانکاری دی جائے۔ پی ایم نریندر مودی کا یہ ارادہ ہے کہ انتخابی سال میں ان اسکیموں پر بات چیت کی جائے اور پارٹی کے حق میں عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے۔ابھی مرکزی حکومت اور بی جے پی کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں شروع کی گئی کئی اسکیموں کو زمین پر مناسب تشہیر نہیں مل سکی ہے، جس کی وجہ سے اسکیم کے کامیاب نفاذ کے باوجود مرکزی حکومت یا بی جے پی کو اس کا سیاسی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ چونکہ وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ پارٹی کے تمام سینئر لیڈروں کی پوری توجہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن پر ہے۔لہٰذا حکومت پر عوام کے اعتماد کو مزید مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں بھی خاطر خواہ بہتری کے معاملے میں سبھی سنجیدہ ہیں۔کابینہ میں ردو بدل کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔
یہ طے ہے کہ دیر سویر جب بھی ہو ، کابینہ کی تشکیل نو میں اس بات کا لحاظ ضرور رکھا جائے گا کہ جن ریاستوں میں عنقریب اسمبلی انتخابات ہونے والےہیں وہاں کے سیاسی و سماجی تانے بانے کے مطابق ہو۔انھیں تبدیلیوں کے ذریعے پارٹی اگلے انتخابات میں بر تری حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ کابینہ میں ردوبدل میں نہ صرف وزرا کی کارکردگی کا خیال رکھا جائے گا بلکہ روٹیشن پالیسی پر بھی عمل کیا جائے گا تاکہ دوسروں کو بھی موقع ملے۔ساتھ ہی قابل ارکان کو موقع ملے اور کچھ وزراء کو تنظیمی امور میں بھی استعما ل کیا جا سکے۔
قابل ذکر ہے کہ 2019 کے بعد مودی کابینہ میں واحد ردوبدل گزشتہ سال جون میں ہواتھا۔ 8 جون کو ہونے والی اس تبدیلی میں 12 وزراء کو شامل کیا گیا تھا جبکہ کچھ سینئر وزراء کی چھٹی کر دی گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔ حالانکہ یہ مانا جا رہا ہے کہ اس بار کابینہ میں ممبران پارلیمنٹ کی تعداد بڑھ سکتی ہے اور کچھ ممبران پارلیمنٹ کو پارٹی کی سطح پر اہم ذمہ داریاں سونپی جا سکتی ہیں۔ساتھ ہی یہ بھی سننے میں آ رہا کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کچھ ارکان اسمبلی کو بھی انعام دئے جانے کی تجویز زیر غور ہے۔ پی ایم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ پارٹی کو کامیابی دلانے والے لوگوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پارٹی کے بڑے لیڈروں نے گجرات کے لیڈروں سے کئی دور کی بات چیت بھی کی ہے۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ خواتین اور ریزرو کیٹیگری سے آنے والے افراد کو کابینہ میں جگہ دی جاسکتی ہے۔
ادھر ایم پی میں ایک مرکزی وزیر کو بڑا رول دے کر دو دیگر لیڈروں کو مودی کابینہ میں شامل کئے جانے کا چرچا زوروں پر ہے۔ایم پی میں تبدیلی کے سوال پر سی ایم شیوراج سنگھ چوہان کا کہناہے کہ میں پارٹی میں اپنا رول خود طے نہیں کر سکتا ہوں۔ میں پارٹی کا ایک مخلص کارکن ہوں اور اگر پارٹی مجھے قالین بچھانے کا کام دے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ حالانکہ مودی کابینہ سے جن لیڈروں کو مدھیہ پردیش واپس بھیجا جا سکتا ہے، ان میں زراعت اور کسانوں کی بہبود کے وزیر نریندر سنگھ تومر، فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کے وزیر مملکت پرہلاد پٹیل اور شہری ہوا بازی کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا کے نام لئے جا رہے ہیں۔ ان تینوں کے علاوہ کیلاش وجے ورگیہ کا نام بھی سرخیوں میں ہے۔ الغرض بی جے پی 2024 کے لوک سبھا اور اس سے پہلے ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مد نظر اپنی حکمت عملی کو آخری شکل دینے کے کام میں ابھی پوری سنجیدگی کے ساتھ جٹ گئی ہے۔بی جے پی کی یہی سنجیدگی اس کو دوسری سیاسی جماعتوں سے مختلف بناتی ہے اور اس کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔
*************************