’’ با رگاہ الہٰی میں ایک التجا ایسی بھی ‘‘

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 2nd Feb

 

 

 

قیصر محمودعراقی
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا، ۵۸

اے میرے اللہ ! میں ایک گنہگار آدمی ہو ں ۔ مجھے دین کا زیادہ علم نہیں ہے ، جب مو قع ملتا ہے قرآن مجید پڑھ لیتا ہو ں ۔ دس با رہ سورتیں زبانی یاد ہیں لیکن ان کے مفہوم کا علم نہیں ۔ میرے پر وردگار ! میں پانچوں وقت کی نماز ادا کر نا چاہتا ہو ں لیکن فجر کی نماز ہی میرے لئے مسئلہ بن جا تی ہے ۔ آج کل کا فی سر دی ہے ، فجر کی نماز ساڑے پانچ بجے ہو رہی ہے ، رات کے ڈیڑھ دو بجے سونا ہو تا ہے ، اب تین گھنٹے بعد نیند سے کیسے بیدار ہو ا جا سکتا ہے ، گرم لحاف سے نکل کر ٹھنڈے پا نی سے وضو کر نا بہت مشکل لگتا ہے ۔
آفس کی تیاری کے وقت سوچتا ہو ں قضا نماز پڑھ لوں لیکن دیر اتنی ہو رہی ہو تی ہے کہ قضا پڑھنا بھی ممکن نہیں ہو تا ۔ لیکن میرے مو لیٰ آپ جا نتے ہیں جمعہ کی نماز میں پا بندی سے پڑھتا ہوں ۔ اس میں البتہ یہ کو تا ہی ضرور ہو جا تی ہے کہ میں خطبہ شرو ع ہو نے سے دو چار منٹ پہلے ہی مسجد پہنچتا ہو ں ، لیکن یہ دو یا چار منٹ بھی پرو بلمزپیدا کر دیتے ہیں ۔ مولوی صاحب کی نصیحتیں اور با تیں میرے دل کو لگتی بہت ہیں دل کا نپ کر رہ جا تا ہے ، رو رو کر گناہوں کی معا فی ما نگنے کو دل چاہتا ہے ۔ پچھلے جمعہ انھوں نے پائینچے ٹخنے سے نیچے رکھنے پر سخت و عیدیں سنائیں میں لرز کر رہ گیا لیکن میرے اللہ میں کیا کروں جو مذہب کی تعبیر کر تے ہیں وہ مجھے پا ئنچے ٹخنے سے اوپر رکھنے کا کہتے ہیں اور جو طرز زندگی کی تعبیر کر تے ہیں و ہ اس کا مذاق اُڑا تے ہیں ۔
اسی طرح میرے اللہ ! میں داڑھی بھی رکھنا چاہتا ہو ں لیکن دوچار دن شیو نہ کروں تو باس بگڑ جا تا ہے اور کہتا ہے ’’یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے ؟ کیا شیو کر ا نے کے پیسے نہیں ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو مجھ سے پیسے لے لیں اور شیو کرا کر آئیں ، ہری آپ ۔ اب میرے مولیٰ ، آپ ہی بتائیں میں کیا کروں ۔ باس کا حکم نہ مانوں تو کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دے گا، میرے چھو ٹے چھوٹے بچے ہیں ، ان کا کیا بنے گا ، پھر آج کل نو کری ملتی کہا ں ہے ، یہ نوکری بھی کتنی سفارشوں اور رشوت کے بعد ملی تھی ۔ لیکن میرے رب میرا وعدہ ہے رٹا ئرمنٹ کے بعد داڑھی ضرور رکھ لونگا۔
انشا ء اللہ ۔ میرا باس کہتا ہے مسلما نوں کو جب کوئی کام نہیں کر نا ہو تا ہے توا نشا اللہ کہتے ہیں لیکن آپ میرے دل کا حال اچھی طرح جا نتے ہیں ۔ اسی طرح اے میرے پاک پروردگار میں سچ بولنا چاہتا ہوں ، مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے ، لیکن جب میں دیکھتا ہوں ، سیاست جھوٹ پرچل رہی ہے ، معیشت جھوٹ پر چل رہی ہے ، حکومت جھوٹ پر چل رہی ہے ، عدالت جھوٹ پر چل رہی ہے تو پھر مجھے بھی جھوٹ بولنے میں ہی عا فیت نظر آتی ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کی اس کشمکش میں ہمیں مکمل طور پر جھوٹ کا ساتھ دینا پڑتا ہے ، ورنہ ہمارا حال اس شخص جیسا ہو جا ئے گا جس کی دو بیویاں تھیں ، ایک اس کی ہم عمر اور ادھیڑ عمر کی تھی اور دوسری نوجوان نہایت خوبصورت ۔ وہ ادھیڑ عمر بیوی کے پاس جا تو وہ اس کے سفید با لوں کو دیکھ کر کہتی سفید با لوں کی بھی اپنی شان ہے ، بزرگی اور احترام کی علامت ، کاش سارے بال سفید ہو جا ئیں ۔
یہ کہہ کر وہ دوچار کا لے بال تو ڑ دیتی ۔وہ جوان اور خوبصورت بیوی کے پاس جا تا تو وہ کہتی ان سفید بالوں سے با لکل بڈھے دکھا ئی دیتے ہو مجھے شرم آتی ہے یہ کہہ کر دو چار سفید بال نوچ دیتی ، تھوڑے دن میں وہ شخص گنجا ہو گیا ۔ لیکن میرے مالک جھوٹ کی اس رفا قت نے مجھے تھکا دیا ہے ۔ پتا ہی نہیں چلا کب بال سفید ہو گئے ۔میرے خدا !ایک زما نہ تھا کہ تنخواہ عزت کا معیار سمجھی جا تی تھی ۔ جس کی جتنی تنخواہ اتنا ہی صاحب عزت ، یہ پچھلے وقتوں کی با تیں ہیں ، اب تنخواہ کی اہمیت نہیں ، اصل اہمیت اوپر کی آمدنی کی ہے ۔ یہی وجہہ ہے کہ ہم اوپر کی آمدنی کر نے پر مجبور ہیں ۔ اگر یہ اوپر کی آمدنی نہ ہو تو میرے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھنے سے محروم رہ جا ئینگے ۔ ہر با پ کی خواہش ہو تی ہے کہ اس کے بچے زندگی میں ترقی کریں ، معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کریں ۔ وہ یہ سب کچھ اعلیٰ انگلش میڈیم اسکولوںمیں تعلیم سے ہی ممکن ہے ، جن کی فیس اوپر کی آمد نی کے بغیر ادا کر نا ممکن نہیں ۔ میرے بچے اگر ان اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرینگے تو یہ معاشرہ انھیں روندتا ہوا گزر جا ئے گا ، انھیں ہر لمحے قتل ہو نا پڑے گا ۔ وہ ان ذلتوں کے مارے لوگوں میں شامل ہو نگے۔ جنھیں عدالتوں ، تھانوں ، کچہر یوں اور اسپتالوں میں دھتکارا جا تا ہے ، جو ایڑیاں رگڑ کر جینے پر مجبور ہیں ۔
میرے اللہ ! اوپر کی آمدنی نہ ہو تو مجھے اور میرے بچوں کو بھی ویگنو ں اور بسوں میں لٹک کر یا چھت پر سفر کر نا پڑے ۔ آپ کی رضا کے لئے میں مصیبت بھی مول لے لو ں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بچے کا روں میں سفر کے عادی ہو گئے ہیں ایسا نہیں ہے کہ کا روں میں سفر کر تے ہو ئے ، ہم آپ کو بھول جا تے ہیں ۔ نہیں ہر گز نہیں ۔ میں جب بھی رشوت کی آمدنی سے نئی گاڑی خریدتا ہو ں سب سے پہلے میں سو رہ یاسین کی تختی لٹکا تا ہو ں ، میں چاہتا ہو ں کہ حلال طریقے سے روزی کمائوں ، کبھی کبھی یہ احساس اتنی شدت پکڑ تا ہے کہ میں سوچتا ہو ں کہ آئندہ صرف حلا ل کے پیسوں پر انحصار کرونگا لیکن نیچے سے اوپر تک کلرک سے لے کر اعلیٰ افسران تک سب اوپر کی آمدنی پر انحصار کر تے ہیں ۔ اس گناہ سے با ہر نکلنے کی کوشش کرونگا تو میرا وہ حشر ہو گا کہ عبرت کی مثال بن جا ئونگا۔ میرے پاک پروردگار ہندوستان کے حالات آپ کے سامنے ہیں ، یہ ملک تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا ہے ، جہد البقا کا تقا ضا ہے کہ اس پر خطر صورت حال سے نمٹنے کی تیاری رکھی جا ئے ، اس لئے کچھ پیسہ با ہر بھیجتا رہتا ہو ں ، بیرون ملک تھوڑی بہت جا ئداد بھی بنا لی ہے ، میرے طبقہ کے لو گوں کو مٹی سے نہیں اس سازگار ما حول سے الفت ہے جو تحفظ اور عزت نفس کی ضما نت دے سکے ۔
میرے مالک ! آخر میں یہ عرض کر نا ہے کہ چاروں طرف بہت اندھیرا ہے ، روشنی کہیں نہیں ۔ اس سسٹم میں روشنی در آنے کا کوئی امکان نہیں ، یہ سسٹم اتنا بو سیدہ اور متعفن ہو چکا ہے کہ اب اسے اصلاح کی نہیں تد فین کی ضرورت ہے ۔ کوئی ایسا بھیج جو نہ خود حیلے کر تا ہو اور نہ ہم جیسوں کا حیلہ قبول کر ے اور اس نظام کا خاتمہ کر سکے ، لیکن میرے مو لیٰ اس سے پہلے میرے اور میری بیوی بچوں کا با ہر جا نے کا بندوبست ضرور کر دینا ۔
***********
موبائل :6291697668