Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 1st Feb
ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی
ناظم جامعۃ الحسنات دوبگا ،لکھنؤ
سماج میں انتشار کی بنیادی وجہ طبقات میں اتحاد کے بجائے مختلف بنیادوںپر تفاوت واختلاف پر زوردیاجارہاہے ۔ جب سے انسانی معاشرہ کا وجود ہوا اور اِنسانیت نے اپنے ہوش و حواس کو سنبھالا اور اپنی بساط عقل وخردکے مطابق اس معاشرہ میں اپنا حصہ ڈالا جو حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کے ذریعہ سے پوری دنیامیں وجود میں آیا، مختلف رنگ و نسل بھانت بھانت کے انسان ہوئے اور اپنی مرضی و مزاج کے مطابق مختلف صنعت وحرفت اپنائی ،زمانہ کے تقاضوں کے مطابق اور اپنی عقل وفہم کے مطابق پیشوں کو اختیار کیا لیکن بہت ہی چالاکی کے ساتھ معاشرے کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کر دیا اوربااثر لوگوں نے اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو اور معمولی صلاحیت والے افراد کو اپنے زیر اثر رکھنے کیلئے ان کو مختلف القاب کے ذریعے انہیں معاشرے میں نیچ دکھانے کے مختلف حیلے اور بہانے تراش لئے اور ذات پات میں تقسیم کردیا جس کا خاتمہ اسلام نے اپنے عہد اول ہی میں کر دیا تھا لیکن افسوس کہ زمانہ جاہلیت کی اسی وبا کو پھر سے معاشرے میں پنپنے کا موقع فراہم کیا گیا جس کو اسلام نے اللہ کے بندوں کے درمیان سے ختم کیا تھا اسی کو اس سوسائٹی اور معاشرے پر مسلط کر دیا گیا اور نوع انسانی کو جو ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد تھی اس کو مختلف طبقات میں تقسیم کر دیا اور اپنے وجودکی بقا کے لئے ذات برادری اور خاندانی حسب و نسب کی لکیر کھینچ دی اس طرح معاشرے میں اونچ نیچ کی بنیاد قائم ہو گئی، مذہب اسلام نے اس بھید بھاؤ کے فرق کو روند دیا اور اس کو سرے سے خارج کر دیا اور یہ بتا دیا کہ نوع انسانی میں کوئی برتری اور کوئی افضلیت نہیں ہے اگر برتری اور اہلیت کا معیار ہے تو وہ صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم سماج میں یہ طبقاتی فرق اونچ نیچ کا بھید بھاؤ یہ غیر مسلم سماج سے آیا اور ہندو ازم میں جو فرق بتایا گیا ہے اس کے اثرات سے مسلمانوں میں یہ بیماری پیدا ہوئی اور ناسور بن گئی لیکن بہت افسوس کامقام ہے کہ مسلم دانشوران نے اس کی طرف خاصی توجہ نہ دی بلکہ بڑے بڑے اکابرین ملت اور علمائے کرام نے بھی اس جانب تساہلی سے کام لیا اور دانستہ یا غیر دانستہ طور پر وہ بھی طبقاتی تفریق میں ملوث ہو گئے یہاں تک کہ شادی بیاہ کے وقت حسب نسب اور خاندانی برتری کی راگ الاپنے لگے سید، شیخ ، صدیقی، فاروقی ،خان ،پٹھان اور دیگر طبقات جس کو وہ نیچے طبقوں میں گردانتے ہیں یعنی دھوبی ،نائی،انصاری،منصوری، موچی،راعینی وغیرہ۔مذکورہ خاندانوں میں شادی نہیں کرتے بلکہ شادی کے وقت دیکھنے لگے کہ اونچے خاندان کا ہے یا نہیں جو خان ہے اسے خان یا پھر کم از کم فاروقی یا صدیقی ہو اگر کسی نے نیچے طبقے کی لڑکی سے شادی کر لی تو اس کاپریوارک بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔کبھی کبھی تووراثت سے بے دخل بھی کردیاجاتاہے۔
علاوہ ازیں شادی میں کفو کی شرط جو کہ درحقیقت لڑکا اور لڑکی کے درمیان ایک مساوات وبرابری اور انسانی مزاج وفطری عادات کو برقرار رکھنے کیلئے اسلام کا ایک زریں اصول اور بہت ہی شاندار طریقہ ٔکار ہے اس کی غلط تشریح کرکے ایک سنگین جرم کیا جا رہا ہے جبکہ مذہب اسلام میں طبقاتی تفریق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا۔ مذہب اسلام نے اعلان کر دیا کہ تمام کے تمام انسان آدم اور حوا کی اولاد ہیں ان کے درمیان کوئی فضیلت کوئی بر تری نہیں ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع میں وضاحت سے اس کا اعلان ہوگیا اور اسلام کا لائحہ عمل منظر عام پر آ گیا جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا کہ تمام انسان برابر ہیں کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں ،نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت ہے بلکہ سب کے سب برابر ہیں، اگر عزت وعظمت ہے مذہب اسلام میں تو اس شخص کی ہے جو تقویٰ و پرہیزگاری میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔اس نسل پرستی کے خاتمہ کیلئے نبی کریمؐ نے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب بنت جحش کی شادی زید بن حارثہ سے کرا کر امت کے نام مساوات انسانی کا پیغام عام کردیا۔
سورہ ہجرات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! ہم نے تمہیں نر اورمادہ (کے ملاپ) سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، (کہ کون کس قبیلے اور کس خاندان کا ہے) بیشک اللہ کی نظر میں تم میں سب سے زیادہ معزز و محترم وہ شخص ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے ولا ہے‘‘ (الحجرات:۳۱)
*************
رابطہ نمبر8175818019