Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 4th Feb
ابونصر فاروق
رابطہ:8298104514
(۱) اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا۔پھر اُس کی بدی اوراُس کی پرہیز گاری اُس پر الہام کر دی۔یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔ اور نامراد ہو گیا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔(الشمس :۷/۱۰)
اللہ تعالیٰ نے جب انسانوں کو پیدا کیا تو اُن کو دو طرح کی صلاحیت سے نوازا۔ایک صلاحیت انتہائی نیک ، متقی اور اچھے انسان بننے کی اور دوسری حد درجہ بد معاش،بدکار اورظالم بن جانے کی۔اور پھر اُس کو جو سمجھ اور عقل دی اُس کی بنیاد پر اُس کے اندر یہ تمیز رکھ دی کہ وہ خود فیصلہ کرے ، وہ اچھا آدمی بن کرجینا چاہتا ہے یا برا آدمی بن کر۔ یعنی کوئی بھی انسان کسی کے دباؤ میں آک اچھا یا برا نہیں بنتا ہے، بلکہ یہ خود اُس کا اپنی فیصلہ اور پسند ہوتی ہے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر انسان شروع میں جن لوگوں کے ساتھ اور جس ماحول میں رہتا ہے ویساہی بنتا ہے، لیکن پھر بعد میں اُس تعلیم و تربیت کو وہ یا تو بھول جاتا ہے یا حالات اُسے اُن چیزوں سے غافل کر دیتے ہیں اور وہ نئے حالات اور ماحول میں نئے انداز سے اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ خود کرتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک بچہ مدرسے کے دینی ماحول میں تعلیم پاتا ہے ۔لباس ،وضع قطع،سوچ فکر، سمجھ بوجھ سب کچھ ایک الگ انداز کی اُسے ملتی ہے۔مدرسے کی تعلیم مکمل کرتے کرتے جب اُس کی عمر بڑھنے لگتی ہے تووہ اپنے آس پاس کے دوسرے لڑکوں کو دیکھتا ہے کہ وہ دنیا وی لحاظ سے اُس سے زیادہ شاندار اور مزے دار زندگی گزار رہے ہیں۔پھر جب وہ مدرسے کی تعلیم مکمل کرکے دنیا کے بازار میں داخل ہوتا ہے تو اُسے محسوس ہوتا ہے کہ اس بازار میں اُس کی تو کوئی قیمت ہے ہی نہیں۔اُس نے جو کچھ پڑھا لکھا وہ سب بیکار ہے۔اب وہ ساری پرانی باتیں بھول کر نئے سرے سے دنیا کی شان و شوکت حاصل کرنے کے لئے دنیا والوں کی دیکھا دیکھی اُن کے ہی جیسی کوششیں کرنے لگتاہے اور پھر ایک پکا دنیا دار انسان بن جاتاہے۔اس نئے آدمی کو دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ اس کو کبھی دین و شریعت سے بھی کوئی رشتہ رہا تھا۔
اس کے بر خلاف ایک ایسا بچہ جو جھگی جھونپڑی کی انتہائی پس ماندہ فضا میں آنکھیں کھولتا ہے اور دیکھتا ہے کہ زندگی کس قدر گندی اور غلیظ ہے۔حرام حلال اور پاک ناپاک سے بے خبر وہ ایک نالائق انسان بنتا چلا جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا، چوری کرنا،چھین جھپٹ کرنا، دھوکہ دینا، لوٹ مارکرنا اُس کی عادت اور ضرورت بن جاتی ہے۔اُس کی زندگی ایک مجرم کی زندگی بن جاتی ہے،جس سے ساری دنیا نفرت کرتی ہے۔انسانی سماج میں اُسے کہیں بھی کوئی عزت اوروقعت نہیں ملتی ہے۔
پھر ایک دن وہ کسی مجلس میں ایک پیشہ ور واعظ کا بیان سنتا ہے۔اخلاق عالیہ ، نیکی اور صالحیت کی باتیں اُس کو معلوم ہوتی ہیں۔ پیارے نبیﷺ کی پاک زندگی کا بیان سن کر اُس کا دل اثر قبول کرتا ہے اور اُس کے اندر ایک نیا انسان جاگتا ہے کہ یہ گندی زندگی چھوڑ کر اچھا انسان بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔پھر وہ اپنی کوشش سے رفتہ رفتہ نیکی اور اچھائی کی باتیں سننا اور سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔محنت و مشقت سے پڑھنا لکھنا سیکھ لیتا ہے اور ایک مدت کے بعد ایک نہایت اعلیٰ اخلاق مند، نیک اور صالح انسان بن جاتا ہے۔
یہ دونوں باتیں ہر انسان اپنی زندگی کے رات دن کی گردش میں ہر جگہ دیکھ سکتا، سمجھ سکتا اورمحسوس کر سکتا ہے۔سورہ الشمس کی اوپر نقل کی گئی آیات میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر نیک اور برے بننے کی دونوں کی طرح کی صلاحیت پیدا کی ہے۔کوئی اچھی صحبت میں رہ کر بھی اچھا نہیں بنتا ہے اور کوئی کیچڑ میں پیدا ہو کر بھی اچھائی کی بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔
(۲) درحقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔تو جس نے (اللہ کی راہ میں)مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے)بچا۔اوربھلائی کو سچ مانا۔اُس کو ہم آسان راستے کی سہولت دیں گے۔اور جس نے بخیلی کی اور (اپنے خدا سے ) غافل رہا۔اور بھلائی کو جھٹلایا۔اُس کو ہم سخت راستے کی سہولت دیں گے۔اور اُس کا مال آخر اُس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہو جائے ۔بیشک راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے۔ (الیل: ۳/۱۲)
اوپر جو باتیں بتائی گئیں وہ کیسے ہوتی ہیں اُن کی تفصیل سورہ الیل کی ان آیتوں میں بتائی جا رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ تم لوگوں کی کوششیں الگ الگ طرح کی ہوتی ہیں۔جو آدمی دنیا میں مالدار ، سرمایہ دار اور دولت مند بن جاتا ہے پھر بھی اُس کے اندر کی نیکی اُس کو نیک بننے پر آمادہ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کا نیک بننا آسان بنا دیتاہے۔ نیک انسان کی پہچان یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ اپنا مال صرف اپنے لئے جمع کرکے نہیں رکھتا ہے بلکہ اللہ کو خوشنودی اور رضامندی نیزاُس کے قہر و غضب سے بچنے کے لئے محتاج، مجبور، ضرورت مند بندوں کودیتا رہتا ہے اور اس طرح بھلائی کو اپنے عمل سے کیسے سچ کر کے دکھایا جاتا ہے وہ ثابت کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ان راہوں پر چلنا آسان بنا دیتاہے۔پھر شیطان ہزار کوششوں کے باوجود بھی اُس کو گمراہ نہیں کر پاتا ہے اورنیکی کے کاموں سے اُسے روک نہیں سکتا ہے، کیونکہ اُس آدمی کو اللہ تعالیٰ کی مدد اور ہدایت میسر ہوتی ہے۔
اس کے بر خلاف دوسرا آدمی مالدار ، سرمایہ دار اور دولت مند بننے کے بعددل کی تنگی کا شکار بن جاتا ہے ، مال خرچ کرنے کی جگہ اُسے سینت سینت کر رکھنے اوربڑھانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔دنیا کی رنگ رلیوں کیں خدا کو بھولا رہتا ہے۔اُس کو نہ خدا کی یاد آتی ہے نہ اُس کی خوشنودی کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی اُس کے قہر و غضب سے وہ ڈرتا ہے۔نیکی کے کام کرنے کو وہ وقت کی بربادی اوربد عقلی سمجھتا ہے۔ضروت مندوں کی مدد کرنے کو وہ دولت کی برباری جانتا ہے اور کبھی کسی محتاج کی مدد نہیں کرتا ہے۔ شیطان اُس کو بالکل ڈھیٹ بنا دیتاہے۔تو پھر اللہ تعالیٰ اُس انسان کو ایسی زندگی گزارنا ہی آسان بنا دیتاہے۔اور وہ نیکی کے راستے پر چلنے والے تمام لوگوں کو بد عقل اور بے وقوف سمجھنے لگتا ہے۔
خلاصہ ان باتوں کا یہ ہوا کہ انسان کا اچھا یا برا بننا اس لئے نہیں ہے کہ اللہ نے اُس کو اس کے لئے مجبور کر دیا ہے۔بلکہ ان دونوں راستوں پر چلنا انسان کا اپنا ارادہ اور فیصلہ ہوتا ہے۔اوراُس کے اسی ارادے اور فیصلے کی بنیاد پر اُس کے ساتھ دنیا کی زندگی کے نتیجے میں آخرت کی زندگی کا فیصلہ ہوگا۔جو آدمی اللہ کی فرماں برداری کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہوا وہ جنت کا حقدار بنے گا اور جس نے دنیا کی زندگی اللہ کی نافرمانی اوربغاوت کرتے ہوئے اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے گزاری وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ جلایا جاتا رہے گا۔
(۳) اور زبورمیں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔(بنی اسرائیل:۱۰۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک اور خوش خبری دے رہا ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس زمین کے وارث، حاکم اورمالک و مختار اُس کے نیک بندے بنیںگے۔خلافت ختم ہونے کے بعد اسلامی دنیا میں بادشاہت کا دورشروع ہوا۔جتنے بھی بادشاہ بنے وہ خلفائے راشدین کی طرح متقی پارسا اور پرہیزگار نہیں بلکہ فاسق و فاجر ،بد کردار بن کر زندگی گزارنے لگے۔ لیکن مسلم سماج دین پر قائم تھااور زندگی کے معاملات شریعت کی پابندی کرتے ہوئے گزررہے تھے۔اس کی برکت یہ ہوئی کہ دنیا میں مسلمان ایک ہزار سال تک حکومت کرتے رہے۔یہاں تک ہمارے ملک میں انگریزوں کے آنے اور حکومت کرنے سے پہلے نیک مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ زندگی سادہ اور صاف ستھری تھی۔زندگی میں خوش گواری اور مزے داری تھی۔لیکن رفتہ رفتہ دنیا میں پڑھنے لکھنے اور سائنس کی بنیاد پر صنعتی ترقی ہونے لگی۔زندگی آسان اور عیش و عشرت والی ہوتی چلی گئی۔مسلم امت میں بے دینی کا رجحان بڑھنے لگا اور غیروں کی دیکھا دیکھی دولت کی ہوس اور دنیا پرستی کی بیماری پیدا ہونے لگی۔پہلے اپنی صلاحیت بڑھانے ، قابلیت پیدا کرنے، عقل مند اور تجربہ کار بننے کے لئے علم اور زبان و ادب پڑھنے سیکھنے سکھانے کا رواج تھا لیکن نئے دور میںاسکول اورکالج کی پڑھائی کا مقصد نوکری حاصل کرنا بن گیا۔نوکری کے لئے اردو زبان سے کوئی مدد ملنے والی نہیں تھی اور حکومت نے بھی اردو دشمنی میںاسکولوں میں اردو پڑھانے کارواج ختم کرنا شروع کر دیا۔دنیا پرست بد عقل اور نادان مسلمانوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کو اردو پڑھانا چھوڑ دیا کہ اس سے تو نوکری ملنے والی ہے نہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت کی موجودہ مسلم نئی نسل اردو زبان سے بے بہرہ اور انجان ہے۔
(۴) آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت اور خواری اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرنے لگے ۔ یہ نتیجہ تھا اُن کی نافرمانیوں کااور اس بات کا کہ وہ شریعت کی حدود سے نکل نکل جاتے تھے۔(البقرۃ:۶۱)
اس آیت میں بنی اسرائیل یعنی یہودی قوم کی نافرمانی اور اللہ کے عذاب کا ذکر ہے ۔لیکن اس وقت چونکہ مسلمانوں نے بھی یہودیوں جیسا رویہ اپنارکھا ہے اس لئے اللہ نے مسلمانوں کو بھی اسی عذاب کا شکاربنا دیا ہے۔
اردو سے ناطہ توڑنے کے سبب قرآن اور دینی کتابوں کے پڑھنے کا رواج بھی ختم ہوتا گیا اوراب نئی مسلم نسل کافر و مشرک کی طرح دین اسلام سے ناواقف ہے۔اللہ نے اس کی سزا یہ دی کہ مسلمان پورے ملک میں غیر مسلم قوم کے غلام بن گئے۔غلامی کا اب یہ عالم ہے کہ مسلمانوں کا سیاسی لیـڈر ہو یا کسی مذہبی جماعت کا امام و امیر ہو یا کسی خانقاہ کا پیر ہو سب کے سب باطل کے آگے سر جھکانے ، اُن کے دربار میں حاضری دینے پر مجبور ہیں اور غلام بن کر زندگی گزارنے پر خوش ہیں۔داڑھی رکھنا، ٹوپی پہننا، ہتھیار رکھنا،ایک سے زیادہ شادی کرنا، بیوی کو طلاق دینا سب کچھ غیر قانونی بن گیا۔نوکری کرنے والے پانچ وقت کی نماز تو دور جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ اور تماشہ یہ ہے کہ اس پر ملت کانہ افسوس ہے نہ ملال۔مسلمانوں کے ہر طبقے او ر فرقے کے مذہبی رہ نما سماج میں پھیلنے والی ہر طرح کی برائی پر خاموش تماشائی بنے رہے۔برائی کو روکنے اور مٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
ہندوستانی مسلمانوں میں بہت بڑی تعداد سنی العقیدہ مسلمانوں کی ہے۔ ان کی پہچان یہ بن گئی کہ یہ بزرگوں کے مزاروں کے پجاری بن گئے۔رسول اللہﷺ کو انہوں نے یہ کہہ کر خدا بنا دیا کہ اب اللہ کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اللہ نے سب کچھ اپنے حبیب اور محبوب نبی کے حوالے کر دیا ہے۔نبیﷺ کے نمائندے بڑے پیر یعنی شیخ عبد القادر جیلانیؓ ہیںاور ملک کے سارے بزرگان دین بڑے پیر کے ماتحت ہیں۔اب انسانوں کی قسمت بنانا اور بگاڑنا اللہ کے نہیں انہیں بزرگوں کے اختیار میںہے۔یہ عقیدہ مشرکانہ تھا۔ نیک اور صالح سنی العقیدہ مسلمان بھی اس کی مخالفت کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے اہل حدیث فرقہ نے بڑی شدت کے ساتھ ان بریلویوں کی مخالفت شروع کردی اوراپنے فرقے میں ان سے شدید نفرت پیدا کر دی۔
مزار پرستی، بزرگوں کے وسیلے سے دعا مانگنا،قرآن خانی، فاتحہ ، میلاد وغیرہ کی زبرست مخالفت کرنا اہل حدیث فرقے کی پہچان بن گئی۔ لیکن خود اہل حدیث فرقے میں جو دنیا داری، دولت کی ہوس، حلال حرام سے غفلت،جھوٹ فریب،وعدہ خلافی،عہد کی خلاف ورزی، ظلم و زیادتی، جائیداد کے بٹوارے کی بے ایمانی جیسی جتنی برائیاں تھیں اُن کی طرف سے ان کی توجہ ہٹ گئی۔مزر پرستی کی مخالفت کرنا ان کے نزدیک ثواب کا کام بن گیا لیکن اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونا اور اُن سے توبہ کرنے کی ذرابھی فکر اورفرصت نہیں رہی۔چنانچہ معروف و منکر جو دین کا سب سے اہم فریضہ تھا اُس کی طرف سے سبھوں نے غفلت کرنی شروع کر دی۔جب کہ قرآن میں اس کی شدید تاکید ہے۔
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیںجو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں،اور برائیوں سے روکتے رہیں۔جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔(آل عمران:۱۰۴) اب دنیا میںوہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(۱۱۰)
نبی ﷺ نے بھی اس بات کی سخت تاکید کی ہے:کیا اہل حدیث حضرات نے ان حدیثوں کو نہیں پڑھا۔پڑا ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں کرتے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جوآدمی کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے بدل دے اگر یہ نہ کرسکے تو زبان سے بدل دے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے بدل دے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے ۔ (نسائی)حضرت جریرؓ بن عبد اللہ کا بیان ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا کسی قوم کا کوئی آدمی ان کے درمیان گناہ کرتا ہو اور وہ اسے روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ ان کی موت سے پہلے ان کو عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ (ابوداؤد،ابن ماجہ)حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیںکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور نیک باتوں کا حکم دیتے رہنا اور بری باتوں سے روکتے رہنا ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر عذاب مسلط کر دے گا پھر تم دعا کروگے مگر تمہاری دعا قبول نہیں ہو گی۔ (ترمذی)
تمام باتوں کو بیان کر کے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ قرآن و سنت کا انکار کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی تباہی ، بربادی، ناکامی، رسوائی، بے عزتی اورغلامی کاانجام سامنے ہے لیکن کسی کو نہ اس کی فکر ہے نہ اس سے نجات پانے کا ارادہ ہے۔سب کو فکر صرف اس کی ہے کہ مسلمانوں کو خوش حال کیسے بنایا جائے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے مواقع کیسے پید کئے جائیں۔
ۃضظژظضۃ