ڈاکٹر ذاکر حسین کے یوم ولادت کے موقع پرخدا بخش لائبریری میںکتابوں کی نمائش، لکچر اور فلم شو

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 8th Feb

پٹنہ: ۸؍فروری۲۰۲۳ء : ہندستان کے سابق صدر جمہوریہ اور ماہر تعلیمات ڈاکٹر ذاکر حسین (۸؍فروری۱۸۹۷۔۳؍مئی۱۹۶۹) بیسویں صدی کے ان چند دانشوروں میں ہیں جن کی شخصیت میں مختلف خوشنما رنگوں کی آمیزش تھی، وہ ایک سچے دیش بھکت، ماہر تعلیمات، اعلی درجہ کے ادیب اور سیاست کے نبض شناس تھے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بنانے سنوارنے اور نکھارنے میں انھوں نے جو رول کیا، ایسی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر (۱۹۴۸۔۱۹۵۶)، بہار کے گورنر (۱۹۵۷۔۱۹۶۲)، نائب صدر جمہوریہ (۱۹۶۲۔۱۹۶۷) اور صدر جمہوریہ (۱۹۶۷۔۱۹۶۹) کی حیثیت سے انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ خدا بخش لائبریری سے ذاکر صاحب کا تعلق ہمیشہ مشفقانہ اور ہمدردانہ رہا۔ بہار کی گورنری کے زمانے، ۱۹۵۷ میں انھوں نے خدا بخش لائبریری کا دورہ کیا اور یہاں کے نوادرات سے بہت متاثر ہوئے۔ اس وقت یہ لائبریری بہار سرکار کے ماتحت تھی،ذاکر صاحب کے عہد گورنری میں بھارت سرکار نے اصولی طور سے لائبریری کو سنٹر کی نگرانی میں لے لیا تھا اور یہ ذاکر صاحب کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ۱۹۶۹ ء میں پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعہ اس لائبریری کو قومی اہمیت کا ادارہ تسلیم کیا گیا اور مرکزی سرکار سے منسلک کر دیا گیا۔ ذاکر صاحب کے توسط سے ایک نادر دسنہ کلیکشن خدا بخش لائبریری کا حصہ بنا۔انھوں نے جب لائبریری کا دورہ کیا تو اس موقع پر انھوں نے لائبریری کے بارے میں بڑا اچھا ریمارکس دیا، ان کی یہ خود نوشت تحریر لائبریری میں محفوظ ہے۔ ذاکر صاحب کی خدمات کے اعتراف میں خدا بخش لائبریری نے چند اہم کتابیں : ذاکر صاحب کے خط (چار جلدیں)، ذاکر صاحب ذاتی یادیں (تین جلدیں)، مقالات ذاکر (چار جلدیں)، نقوش ذاکر،ڈاکٹر ذاکر حسین حیات و خدمات شائع کیں۔ خدا بخش لائبریری نے اپنے محسنوں کی یاد کو ہمیشہ تازہ کیا ہے۔آج کی یہ نمائش اسی یاد کو تازہ کرنے کے لئے لگائی گئی ہے۔ ذاکر صاحب کی تصنیف کردہ کتابوں میں معاشیات:مقصد اور منہاج، تعلیمی خطبات، ابو خاں کی بکری، کچھوا اور خرگوش اور افلاطون کی کتاب کا ترجمہ ریاست اس نمائش میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ذاکر صاحب پر لکھی گئی کتابوں میں حیات ذاکر حسین، متاع فقیر، شہید جستجو،مآثر و مکاتیب ڈاکٹر ذاکر حسین، افکار ذاکر مکاتیب کی روشنی میں، تیسرے راشٹرپتی ڈاکٹر ذاکر حسین، ذاکر حسین: ادھیاپک جو راشٹرپتی پد پر ہواآسین، اور ان کہے پل:ڈاکٹر ذاکر حسین پتر، لیکھ اور بھاشن کے آئینے میں جیسی اہم کتابیں اس نمائش کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ مذکورہ باتیں ڈاکٹر شائستہ بیدار، ڈائرکٹر خدا بخش لائبریری نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہیں۔


ڈاکٹر سنجے کمار نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ امرت مہوتسو کے موقع پر ان شخصیات کو یاد کرنا جنھوں نے جدید ہندستان کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا، اپنے آپ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان شخصیات میں ذاکر صاحب ایک نمایاں نام ہے۔ وہ مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے، مترجم، ادیب، کہانی نویس، سیاست کے رمزشناس، تعلیمات کے اسرار و رموز کے ماہر، یہ سب خوبیاں بیک وقت ان میں جمع تھیں۔شہیدوں کے خون سے زیادہ روشن وہ تحریر ہوتی ہے جو ایک اسکالر لکھتا ہے۔ ذاکر صاحب بے لوث محب وطن تھے اور اعلی تعلیم کے لئے جرمنی جانا، ان کی تعمیری سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ گاندھی جی نے پہلی ملاقات کے وقت ذاکر صاحب سے دریافت کیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کیا کرتے ہیں، تو جواب میں ذاکر صاحب نے کہا کہ انگریزوں کے خلاف سپاہی تیار کر رہے ہیں، پھر انھوں نے پوچھا کون کون سے ہتھیار ہیں، ذاکر صاحب نے جواب دیا، تعلیم ہماراسب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ذاکر صاحب نے مادری زبان میں تعلیم کی بات کہی تھی، موجودہ سرکار آج یہی کوشش کررہی ہے کہ مادری زبان کو طاقتور بنایا جائے۔ذاکر صاحب ہندستان میں زبان کے طور پر ہندستانی، ایک ایسی زبان جو سنسکرت اور عربی و فارسی سے پاک ہو، کی وکالت کرتے تھے اور رسم الخط کے طور پر پہلے دیوناگری اور دوسری اسکرپٹ اردو کی بات کرتے تھے۔ انھوں نے اقامتی درسگاہ کی تھیوری کو پیش کیا اور اخلاقی تعلیم پر زور دیتے تھے۔
آخر میں ڈائرکٹر صاحبہ نے کہا کہ یوم ولادت پر ہم ذاکر صاحب کو یاد کررہے ہیں کیونکہ یاد کرنے کا اس سے اچھا موقع ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اپنے بڑوں کو ہمیں جاننا چاہئے اور ان کی لکھی کتابوں کو پڑھنا چاہئے تاکہ اس کی روشنی میں اپنے ملک اور سماج کو تابناک بناتے چلیں۔ اس موقع پر چند سوالات بھی پوچھے گئے جن کے تشفی بخش جواب دئے گئے۔ آخر میں ڈاکٹر ذاکر حسین پر ایک دس منٹ کی فلم بھی دکھائی گئی۔