شہزادہ داراشکوہ پر خدا بخش لائبریری میں لکچر

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 20th March

پٹنہ:۲۰ مارچ ۲۰۲۳۔ خدابخش لائبریری میںشہزادہ دارا شکوہ کی یوم پیدائش پر داراشکوہ اور آج اس کی معنویت کے موضوع پر لکچرز کرائے گئے۔ ڈاکٹر امتیاز احمد(سابق ڈائریکٹر،خدا بخش لائبریری)، ڈاکٹر زاہدی (شعبہ فارسی،اورینٹل کالج)، اور ڈاکٹر رتیشور ناتھ تیواری(شعبہ تاریخ،جے پی۔یونیورسٹی)کے لکچر کاانعقاد کیا گیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر شائستہ بیدار، ڈائرکٹر خدا بخش لائبریری نے ہمیشہ اپنے بڑوں کو یاد کیا ہے اور انکی خدمات کو لکچر زاور نمائش کتب کے ذریعہ لوگوں تک پہنچایا ہے۔اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے آج داراشکوہ پر مخطوطات اور کتابوں کی نمائش لگائی گئی۔اس کے ساتھ ہے دارا شکوہ اور اس کی معنویت کے موضوع پر لکچرز کا انعقاد کیاگیا۔ڈاکٹر شائستہ بیدار نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ آج ہم لوگ ایک ایسے انسان کو یاد کرنے جارہے ہیں جو Unity of Indiaکا، Interfaith Understandingکا، دلوں کو جوڑنے کا پرتیک ہے۔
آج اگر اس جیسی سوچ کے لوگ، بڑی تعداد میں ہوں تو ہندستان کی فضا بدل جائے۔ محبت اور آشتی اور بڑھے۔
میرا مقصد داراشکوہ کی شخصیت سے ہے۔
خدا بخش لائبریری اور داراشکوہ کا ایک گہرا تعلق ہے۔ دونوں نے، زمانے سے، دلوں کو قریب لانے کا کام کیا ہے۔ اور ’’سروا دھرمسمان‘‘Sarva Dharm Samman (سب دھرموں کا ایک سا آدر) کی Policy کو Promote کیا ہے کہ یہ ساری دنیا ایک ہی ایشور کی سنتان ہے،ایک ہی ایشور کے ہزار رنگ کا منظر نامہ ہے، بس سمجھ کا پھیر ہے۔ جو سمجھ گیا، اس نے پالیا۔ جس نے پالیا اس نے دنیا سے دوری اختیار کرلی۔ لیکن آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جس نے سمجھ لیا اور پالیا تو دنیا میں رہ کر ہی، دنیا کو، خوشگوار بنایا جائے، رہنے لائق بنایا جائے۔ دنیا سے فرار حاصل کرکے تو صرف اس ایک واحد شخص کی ذات کو راحت ملتی ہے۔ سماج کو کچھ دے کر جانا ہے۔ اگر اپنے کردار سے کسی ایک کی بھی شخصیت کی تعمیر کردی تو مانو جیون سفل ہوا۔ یہ میرا، آپ کا، سب کا کرتویہ ہے۔


داراشکوہ جس کو مشہور صوفیوں اور دل والوں کا ساتھ ملا، شفقتیں ملیں، پہلے تو میاں میر، وہی میاں میر جنہوں نے امرتسر کےGolden Temple کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر کشمیر کے ملا شاہ بدخشی کشمیری کے سایہ میں رہ کر تصوف کے نکات سیکھے۔ جب داراشکوہ کو ایسی شخصیات کا ساتھ ملا تو ظاہر ہے کہ اس کا خمیر تو ایسے ہی اٹھنا تھا۔اس کا فلسفہ تھا کہ دنیا میں بس ایک ہی ہے، دوئی exist ہی نہیں کرتی۔ ہر جگہ ایشور کا، خدا کا جلوہ ہے۔ آئیے کچھ دارا کے اشعار سنائیں:
پنجہ در پنجہ? خدا دارم من چہ پروائے مصطفے ٰ دارم
من ترا جویاں و تو ہمراہ من عقل گشتہ رہبر گمراہ من
میں تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں اور تم میرے ساتھ ہو عقل مجھ سے گمراہوں کی رہنما بن گئی ہے

اے تو اندر ہر جمالے رونما وے تو اندر ہر لباسے آشنا
تو ہر جمال میں جلوہ آرا ہے تو ہر لباس میں جلوہ گر ہے

اے بہر جا حسن خوبت جلوہ گر اے فتادہ شور حسنت جا بجا
ہر جگہ تمہارے حسن کی خوبیاں موجود ہیں ہر جگہ تمہارے حسن کا شور برپا ہے

آنکہ ہر کس دید سوئے روئے تو چشم خود پوشید او از ماسوا
جس شخص نے بھی تمہارا روشن چہرہ دیکھا اس نے ماسوا سے اپنی آنکھیں پھیر لیں

ڈاکٹر رتیشور ناتھ تیواری نے کہا کہ دارا شکوہ کا یہ ماننا تھا کہ انسانیت سب سے بڑی چیز ہے۔تمام مذاہب کے مارگ الگ الگ ہیں مگر ان کی منزل ایک ہے۔دارا شکوہ نے ہندو مذہب اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کیا اور ان کے پیغامات کوفارسی زبان میں پیش کیا۔دارا شکوہ کی ادبی خدمات قابل قدر ہیں۔وہ انسانیت پسند تھے ۔
ڈاکٹر زاہدی صاحب نے داراشکوہ کی حالات زندگی اور ان کی کتابوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ دارا شکوہ قادری فرقہ سے منسلک ہوئے اور ملّا شاہ بدخشی سے مستفید ہوئے۔
ڈاکٹر مجتبی حسین نے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر داراشکوہ اگر ہندوستان کا بادشاہ ہوتا توبہتر ہوتا۔دارا شکوہ نے اپنشدھ کے تراجم کر کے اسے عام کیا۔ہمیں دارا شکوہ کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر امتیاز احمد نے کہا کہ دارا شکوہ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔اس کی فارسی ادب میں بہت خدمات ہیں۔داراشکوہ نے فارسی زبان کا استعمال ایک پُل کے طور پر کیا ہے۔سکینتہ الاولیا اور سفینتہ الاولیا اس کی گراں قدر کتابیں ہیں۔سفینتہ الاولیا کا خدا بخش لائبریری میں ایسا نسخہ موجود ہے جس پر دارا شکوہ کے دستخط ہیں۔سرّ اکبر کے ذریعہ دارا شکوہ نے ڈائلاگ کو آگے بڑھانے کا کام کیا۔داراشکوہ اکبر کا spritual successor تھا۔داراشکوہ کے خیلات کو سمجھنے کی آج کے حالات میں سخت ضرورت ہے۔
ڈاکٹر فضیل احمد قادری نے بھی اس موقع پر دارا شکوہ کے سلسلہ میں اپنے خیلات رکھے۔انہوں نے کہا کہ interfaith understanding کے نمونے تیرہوٰن صدی عیسوی سے ملتے ہیں۔

پروگرام کے آخر میں شری وملیندو نے دارا شکوہ پر اپنی خوبصورت نظم پیش کی اور سامعین نے سوالات کئے جس کا مقرر نے تشفی بخش جواب دیا۔