لڑکیوں کی پیدائش کا تناسب مسلسل کیوں گر رہا ہے؟

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 12th March

ہندوستان میں مردم شماری سے متعلق اعداد و شمار کے مطابق بچوں کی پیدائش میں کمی کا رجحان ہے اور بچوں میں بھی لڑکیوں کی پیدائش کا تناسب بری طرح گھٹ رہا ہے۔ عورت و بیٹی کی پیدائش کو بوجھ سمجھا جارہا ہے اور ترقی کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود دنیا دورِ جاہلیت کی طرف پلٹ رہی ہے جبکہ عورت بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا تھا۔ لڑکی کی پیدائش بے عزتی اور ہتک مانی جاتی تھی اور نوزائدہ لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی اِس بربریت کو ختم کیا اور ساری دنیا نے اسلام سے روشنی حاصل کی۔ اسلام نے بیٹیوں کی پرورش کرنے اور ان کا اچھے خاندان میں نکاح کرنے والے ماں باپ کو جنت اور جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہنے کی بشارت دی ہے۔ مشرقی تہذیب کی نشانی عورت کا احترام ہے لیکن ہندوستان میں جو مشرقی تہذیب کا سب سے بڑا نمائندہ ملک ہے شکم مادر میں جنس کی جانچ کے ذریعہ اسقاط حمل کے ذریعہ بیٹیوں کی پیدائش روکی جارہی ہے۔ اس طرح ماں کی پیٹ میں بیٹی کا قتل ہورہا ہے، یہ امر کسی حد تک خوش آئندہے کہ مودی حکومت نے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم شروع کی ہے، اس مہم میں تمام مذاہب کے رہنماؤں کو رہبری کا فریضہ انجام دیتے ہوئے سرگرم حصہ لینا چاہئے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار اس تلخ حقیقت کا اظہار ہیں کہ ملک میں ماں باپ منصوبہ بند طریقہ سے لڑکی کی پیدائش روک رہے ہیں حالانکہ شکم مادر میں جنس کی جانچ قانون کے تحت ممنوع ہے اور خلاف ورزی کرنے والے ڈاکٹرس اور دوا خانوں کیلئے سخت جرمانے مقرر ہیں، اِس کے باوجود دھڑلے سے سارے ملک میں عورت بیٹی کی پیدائش روکنے کے لئے اسقاط حمل کی لعنت پھیلی ہوئی ہے۔ پہلے ہی لڑکوں کے مقابل لڑکیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے، اگر جنس معلوم کرکے اسقاط حمل کا سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں سنگین سماجی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جن گھروں میں لڑکیوں کی پیدائش ہورہی ہے، وہاں ان کی تعلیم تربیت اور نگہداشت پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالہ سے مرکزی وزارت انسانی وسائل اور یونیسیف کی تازہ سروے رپورٹ کے مطابق اگرچہ لڑکیوں کی تعلیم کے اعتبار سے دہلی، کیرالا اور ٹاملناڈو سرفہرست ہیں لیکن گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں بہت برا حال ہے۔ ضلع کی سطح پر جو رپورٹیں لڑکیوں کی تعلیم، صحت اور سماجی محرومیوں سے متعلق سامنے آئی ہیں، ان کی روشنی میں ملک کے پسماندہ علاقہ ان مسائل کے حل کے لئے حکومت کی توجہ کے طلب گار ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر ملک کو مکمل خواندہ بنانے کا خواب ہرگز شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہ شرمناک بات ہے کہ سارے ملک میں صرف کیرالا، تاملناڈو، ہماچل پردیش، دہلی اور تریپورہ میں ہی لڑکیوں کو بہتر تعلیم کی سہولتیں مہیا ہیں اور لڑکیوں کی بڑی تعداد ان سے استفادہ بھی کر رہی ہے۔ شمالی ریاستوں بشمول راجستھان، مدھیہ پردیش اور بہار میں لڑکیوں کی تعلیم پر بہت کم توجہ ہے۔ بہرحال تاملناڈو جیسی ریاست میں بھی جہاں مجموعی طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی گئی ہے اور درکار سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ رامنتاپورم، کرشنا گیری اور دھرم پوری اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے انتظامات بالکل ناقص ہیں۔ مرکز اور ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف لڑکیوں کی پیدائش کو یقینی بنانے پر خاص توجہ دیں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا خاص لحاظ رکھیں، لڑکیوں کی شادی بیاہ پر شاہ خرچیوں کو روکنے سے بھی لڑکیوں کی پیدائش روکنے کی لعنت ختم کرنے میں مدد ملے گی۔