عید الفطر مسلمانوں کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 18 APRIL

مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج

عید الفطر مسلمانوں کا مذہبی تیوہار ہے، جو ماہ صیام کے اختتام پر منائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان تمام مسلمانوں کو عید الفطر کی صورت میں ایک حسین تحفہ عنایت فرمایا ہے، جو پورے ایک ماہ تک اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ رضائے الٰہی کے تحت گزارتے ہیں اور تزکیہ نفس کرتے ہیں۔ عید الفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اورمسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انہیں نصیب ہوتا ہے۔
عید کا آغاز:
٭ عید کا آغاز 624ء میں ہوا چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبیﷺ جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا کہ مدینے کے لوگ دو مخصوص دنوں میں کھیل و تفریح کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔آپﷺ نے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ ہمارے تہوار ہیں، ہم دور جاہلیت سے ان دو دنوں میں اسی طرح خوشی مناتے رہے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: “وقد أبدلكما اللهُ بهما خيرًا منهما: يوم الفطر ويوم الأضحَىیعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے زیادہ بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ (سنن ابوداؤد)
شب عید الفطر کی فضیلت:
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: “و یغفر لھم فی آخر لیلۃ، قیل: یارسول اللہ، اَھی لیلۃ القدر،قال: لا ولکن العامل اِنما یُوفی اجرہ اذا قضی عملہ”(احمد) یعنی جب رمضان کی آخری رات ہوتی ہے تو روزہ داروں کو بخش دیا جاتا ہے، صحابہ نے دریافت فرمایا، اے اللہ کے نبی، کیا یہ لیلۃ القدر ہے، آپﷺ نے جواب میں فرمایا، نہیں بلکہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہوجاتا ہے تو اسے مکمل مزدوری دی جاتی ہے۔
عید الفطر کی فضیلت:
٭ عید الفطر مسلمانوں کے لئے خوشی کا دن ہے، کیونکہ اس دن کو نبی کریمﷺ نے یوم الجوائز یعنی انعامات کا دن قرار دیا ہے۔ کیونکہ بندہ مومن رمضان المبارک کے پورے مہینہ میں جب اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرتا ہے، پورے دن روزہ رکھتا ہے، بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتا ہے، رات میں تراویح کی نماز میں خود کو تھکاتا ہے، اور بقیہ ایام کے بالمقابل رمضان المبارک میں ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسے بندہ کے لئے اللہ تعالی نے اس دن کو متعین فرمایا ہے، تاکہ مزدور کو اس کی پوری مزدوری دی جاسکے۔نبی کریمﷺ نے اس دن کو مسلمانوں کے لئے باضابطہ مذہبی تہوار قرار دیا ہے۔آپﷺنے فرمایا: “اِن لکل قوم عیدا و ھذا عیدنا” یعنی ہر قوم کے لئے تہوار کا ایک دن متعین ہے اور یہ ہمارے لئے عید کا دن ہے۔
خوش نصیب لوگ:
٭ عید الفطر یقیناً مسلمانوں کے لیے اظہارمسرت کا دن ہے۔ یہ اللہ کا دیا ہوا تہوار ہے۔ بلاشبہ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے ماہ صیام پایا اور روزہ، نماز، تراویح، سحر و افطار کی برکتوں کو حاصل کیا، اور زکوٰۃ و خیرات اور صدقہ فطر ادا کرکے اپنی عبادتوں کی مقبولیت کا ذریعہ بنایا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت و بخشش طلب کی، تو ایسے ہی لوگوں کے لیے عید ایک عظیم تحفہ ہے۔عید کی خوشیاں اور اس کے منانے کے مستحق یہی لوگ ہیں۔
بد نصیب لوگ:
٭ بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے رمضان کی مبارک ساعتوں میں ذرا بھی اپنی مغفرت و نجات کی فکر نہیں کی، رمضان کا سارا مہینہ اس نے یوں ہی غفلت اور محرومی میں گزار دیا۔ عبادت، تلاوت قرآن اور خیرات و زکوٰۃ کو ادا نہ کیا، اور اللہ کو خوش کرنے بجائے اس نے اللہ کا غضب اور بھڑکایا۔ اس کو بھلا کیا حق ہے کہ عید منائے اور خوشی کا اظہار کرے۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا قول:
٭ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ عید ان کی نہیں، جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا، بلکہ عید تو ان کی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے اور اس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے۔ عید ان کی نہیں، جنہوں نے بہت زیادہ خوشیاں منائیں، بلکہ عید تو ان کی ہے، جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔ عید ان کی نہیں، جنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کیے، بلکہ عید تو ان کی ہے، جنہوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید ان کی نہیں، جو دنیاوی زیب و زینت اور آرایش و زیبایش کے ساتھ گھر سے نکلے، بلکہ عید تو ان کی ہے، جنہوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اور خوف خدا اختیار کیا۔ عید ان کی نہیں، جنہوں نے اپنے گھروں میں چراغاں کیا، بلکہ عید تو ان کی ہے، جو دوزخ کے پل سے گزر گئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول:
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عید کی مبارکباد دینے کے لیے آنے والوں سے فرمایا: عید تو ان کی ہے، جو عذاب آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پاچکے ہیں۔
آج کا دن عید بھی وعید بھی:
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ عید کے روز آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو دیکھا کہ وہ گھر کا دروازہ بند کیے زارو قطار رورہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: امیرالمومنین! آج تو عید کا دن ہے اور آپ رو رہے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔آج جس کے نماز، روزے اور دیگر عبادات قبول ہوگئیں، بلاشبہ اس کی آج عید ہے اور جس کی عبادات قبول نہیں ہوئیں، اس کے لیے وعید کا دن۔ میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ نہیں معلوم میری عبادات قبول ہوئیں یا انہیں رد کردیا گیا۔
عید الفطر کی نماز کا طریقہ
٭ عید الفطر کی دیگر نمازوں کی مانند ادا کی جاتی ہے البتہ عید الفطر میں چھ زائد تکبیرات بھی ہیں۔علاوہ ازیں، عید الفطر کی نماز دو رکعت ادا کی جاتی ہے جس کے بعد خطبہ مسنون ہے۔
پہلے اس طرح نیت کرے کہ نیت کی میں نے دو رکعت واجب مع زائد چھ تکبیروں کے، واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ میرا طرف کعبے شریف کے، پیچھے اس امام کے، اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثناء پڑھے، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑ دے، پھر دوسری مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑ دے، پھر تیسری بار اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں اور ہاتھ باندھ لے۔پھر امام اعوذباللہ اور بسم اللہ آہستہ اور سورۃ فاتحہ اور سورت آواز سے پڑھے۔ مقتدی سماعت کرے، پھر رکوع اور سجدے کرکے دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں۔
دوسری رکعت میں پہلے امام سورہ فاتحہ اور سورت پڑھے. پھر امام اور مقتدی اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں۔ پھر دوسری دفعہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں۔ پھر تیسری دفعہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں۔ پھر چوتھی مرتبہ بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائیں اور طریقہ کے موافق دو رکعت نماز پوری کریں۔
عید الفطر کا پیغام:
٭ لہذا تمام مسلمانان اہلسنت جنہوں رمضان المبارک مہینے کی برکتوں و سعادتوں سے بھر پور لطف اندوز ہوئے اب عید کی خوشبوں میں شریک ہو رہے ہیں تو عید کے اس پر مسرت موقع پر ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں ان میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔
اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو زمانہ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں۔کسی نے کہا: آج تو عید کا دن ہے؟ یہ سن کر آپ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا: جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنہیں یہ ٹکڑے بھی میسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟
********