اپنے ساتھیوں سے کہیں ہمارے دروازے پر کھڑے ہوکر اتنی سخت باتیں نہ کریں: چیف جسٹس

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –24  MAY

اسلام آباد،24مئی: سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ’ہم بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں اور ہم یہاں حکومت کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ‘انھوں نے کسی بھی واقعہ کا حوالہ دیے بغیر کہا کہ ’ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔‘اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ سماعت کے دوران کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اٹھائے گئے نکات پہلے کیوں نہیں اٹھائے تھے۔ انھوں نے کہا کہ دوسرا نقطہ تھا وفاقی حکومت پہلے چار تین کے چکر میں پڑی رہی۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایک صوبے میں انتخابات ہوں تو قومی اسمبلی کا الیکشن متاثر ہونے کا نقطہ اٹھایا گیا تھااور اپنے جواب میں4/3 کے فیصلہ ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو گھبرانا نہیں چاہیے اور عدالت آپ کی سماعت کے لیے بیٹھی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’اگر کوئی معقول نقطہ اٹھایا گیا تو جائزہ لے کر فیصلہ بھی کریں گے۔‘چیف جسٹس نے جمعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کا نام لیے بغیر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنے ساتھیوں سے کہیں ہمارے دروازے پر کھڑے ہو کر اتنی سخت باتیں نہ کریں اور اپنے لوگوں کویہ بھی کہیں کہ ایوان میں کھڑے ہوکر سخت باتیں نہ کریں۔ ‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہماری ہر چیز درست رپورٹ نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ کہا گیا عمران خان کو عدالت نے مرسیڈیز دی تھی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا جبکہ پولیس نے عمران خان کی مرسیڈیز کا بندوبست کیا تھا اور اس بات کو پتہ نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا۔ ‘الیکشن کمیشن کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پر کرتی ہے۔انھوں نے کہا کہ انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لیے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتے۔انھوں نے کہا کہ مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اور عدالت کو نہیں ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 150 سال کی عدالتیں نظیریں غیر موثر ہوگئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’150 سالہ عدالتی نظیروں کے مطابق نظر ثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے اور اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا‘۔دورانِ سماعت تین رکنی بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دائرہ کار پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں نظر ثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آ جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کا نظر ثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو۔انھوں نے کہا کہ آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہونے سے نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا دس سال بعد کوئی نظر ثانی دائر کر کے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے۔جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہیگ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ نظر ثانی دائر کرنے کے لیے مدت ختم نہیں ہونی چاہیے۔جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ 70 سال میں یہ نقطہ آپ نے دریافت کیا ہے تو نتائج بھی بتائیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نظر ثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ رولز نظر ثانی کے آئنی اقدام پر قدغن نہیں لگا سکتے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 184/3 از خود نوٹس سے متعلق ہے، اس استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی نظر میں نظر ثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں نظر ثانی میں دائرہ وسیع کیا جائیگا۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اس نقطہ پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے۔