حج میں ملی اتحادو اجتماعیت کونقصان نہ پہونچائیں؟

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –27  MAY

ذکی نور عظیم ندوی — لکھنؤ

ان دنوں پوری دنیا کے مسلمان حج کے لئے مکہ مکرمہ روانہ ہو رہے ہیں کیونکہ حج ایک اہم رکن اور فرض عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ بے شماردنیوی و اخروی مقاصدومصالح اور بے حد و حساب اجر و ثواب اورناقابل شمار فضیلتوں کا ذریعہ ہے۔یہ کوئی عام تقریب یا سالانہ رسم ورواج نہیں بلکہ اللہ اور رسول کی واضح ہدایات و تعلیمات کی پیروی ہے، جس میں بےشمار دینی، دعوتی اور سماجی ہدایات و پیغامات ہیں۔ اس کے عظیم مقاصد میں،اللہ کی صحیح معرفت، اس کی مکمل اطاعت، عقیدہ توحید پر ثابت قدمی، ایمان ویقین کی پختگی اور ایثار و قربانی کا جذبہ سب سے زیادہ نمایاں ہے۔حج تمام انبیاء کرام کی سنت،  زمین پر اللہ کی عبادت کیلئے تعمیر کردہ پہلی عمارت سے لگاؤ کی علامت، ابراہیم ؑ کی اذان اور پکار پر عالمی سطح پرامت کی طرف سے اس کا مثبت جواب، حضرت ابراہیم ؑ کی کعبہ کی تعمیر کے وقت کی گئی دعاؤں کا ثمرہ اور مسلمانوں کی نبی اکرم ؐکے ساتھ دوسرے انبیاء کی بھی قدردانی کی دلیل ہے.۔

حج مختلف امتیازات، بے شمار فضائل اور بے حد وحساب اجر وثواب والی عبادت ہے جو بیک وقت مالی عبادت بھی ہے اور جسمانی بھی، اس میں نماز بھی ہے، اور فدیہ کی شکل میںروزہ بھی، یہ خانہ کعبہ کے تعلق سے مسلمانوں پر مشروع دیگر اعمال طواف، عمرہ اور استقبال قبلہ میں سب سے اہم اور نمایاں عمل ہے۔حج متعین مہینوں، تاریخوں، اوقات اور مقامات پر کئے گئے اعمال اور ممنوعات احرام سے اجتناب پرمشتمل ایک دینی شعار ہے۔  جسے اگر اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق ادا کیا جائے تو حج مبرور ہے اور اس کا اجر جنت ہے، اور اگر فسق و فجور اور گندگیوں سے بچتے ہوئے انجام دیا جائے تو نو مولود کی طرح گناہوں سے پاکی کا ذریعہ ہے۔ استطاعت کے باوجود نہ کیا جائے تو ایمان کو خطرہ، اور ادائیگی میں بلا عذر تاخیر موجب خسارہ ہے۔

حج میں تلبیہ کا بکثرت پڑھنا، سورہ کافرون وسورہ اخلاص کی قراءت اور عرفہ کی خاص دعا  وغیرہ کے ذریعہ “توحید” کی طرف خصوصی توجہ اور شرک سے اجتناب کی تاکید ہے، اس میں اللہ کے قرب اور حقیقی سربلندی کے لئے صرف تقوی اور للہیت کو اصل معیار قرار دیاگیا۔دوسری عبادات نماز ،روزہ ،زکات کی طرح اس کے اعمال و مناسک میں بھی وقت کی پابندی در اصل وقت کی اہمیت اور ہر میدان میں اس کے شاہ کلید ہونے کا اعتراف ہے، حج کی ابتدا طواف قدوم سے اور اس کی تکمیل طواف وداع کے ذریعہ خانہ کعبہ کی مرکزی حیثیت کا اعلان ہے۔اس موقع پر منی میں واقع شیطان کی علامت کے طور پر بنائے گئےجمرات کی رمی شیطان کے بہکاوے میں نہ آنے کا عہد  ہے، صفا و مروہ کی سعی حضرت ہاجرہ و اسماعیل کی یادگار، اللہ پر ہر حال میں یقین اور اس کے احکام کی آخری حد تک تعمیل کی مثال ہے۔

حج کی باحیثیت افراد پر زندگی میں صرف ایک بار فرضیت دین میں آسانی اور دشواری سے بچنے کی علامت ہے۔حج کی  استطاعترکھنے والے اور نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کے لئے ذوالحجہ کے پہلے عشر ہ میں تمام نیک اعمال کو افضل اور سب سے زیادہ محبوب قرار دے کر، یوم عرفہ کے روزہ کی مشروعیت، تکبیرات تشریق، دعاؤں اور قربانی کے ذریعہ اجرو ثواب کے حصول کا موقع دیکر اسلام میںغریبوں کی رعایت کیبھی ایک طرح سے واضح مثال پیش کی گئی ۔

حج اس نقطۂ نظر سے بھی اہم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سابقہ نبی ہونے کے باوجودحج کے بعض اعمال میں ان کی سنت کے احیاء ، اسی طرح نمازوں میں ان پر درود بھیجنے کو امت محمدیہ میں عبادت کا جزء قرار دیا گیااور یہ پیغام دیا گیا کہ مسلمان تمام انبیاء کے قدرداں ہیں اسی لئے توحید خالص اور قربانی پر مشتمل جذبہ ابراہیمی پر عمل کی ترغیب دی گئی اوراس کوحج جیسے عمل کا حصہ بنا کر ثواب کا مستحق بنا دیا گیا، اوراس طرح حضرت ابراہیم کی دعا “اور پچھلے لوگوں میں میرا ذکر خير جاری کردے”(84) کو قبول کرکے اللہ نے رہتی دنیا تک ان کا ذکر خیر محفوظ کر دیا۔

حج ایک عظیم دعوتی مشن ہے جس میں پوری دنیا کے مسلمانوں کوسال میں ایک بار ، ایک ساتھ، ایک جگہ اتحاد و اتفاق اور مساوات کا عملی مظاہرہ اور انتشار وافتراق سے بچنے کی تعلیم دی گئی اوراس کو مسلمانوں کے باہمی تعارف، ایک دوسرے کے حالات اور ضرورتوں سے واقفیت اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنادیاگیا۔ حج کے بیشتر اعمال و مناسک میں ملی اتحاد واجتماعیت کا خاص طور پر خیال رکھا گیا اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو خاص ایام میں ایک ساتھ حج کےبیشتر اعمال، وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا پابند کیا گیا، مردوں کو ایک ہی لباس(احرام) میں رہنے اور حج کے لئےمختص ایک ہی خاص ذکر’’ تلبیہ‘‘ کو دہراتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ ایک ساتھ آنے جانےاور مناسک حج ادا کرنے کی ترغیب دی گئی۔حج میں عرفہ کا دن سب سے زیادہ اہم ہے اور وہاں ۹  ذوالحجہ کا وقوف حج کا سب سے بڑا فرض ہے جس کے بغیر حج کی ادائیگی ممکن نہیں۔ اسی دن اللہ کی طرف سے بندوں کی سب سے زیادہ مغفرت کی جاتی ہے،یہاں تک کہ ا للہ اپنے ان بندوں پر فرشتوں کے سامنے اظہار فخر فرماتا ہے۔اس دن کی ایک اہم خاصیت، ملی اتحاد واجتماعیت کااہم ترین مظہر اور نبی اکرم ؐ کی واضح اور ثابت سنت اس دن میدان عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ قصر کرتے ہوئے ظہر ہی کے وقت میں دو دو رکعت پڑھنا ہے تاکہ اس کے بعد حجاج کرام یکسو ہوکر غروب آفتاب تک دعا و مناجات میں مشغول رہیں۔

لیکن افسوس کہ اس دن حجاج کرام کے درمیان سب سے زیادہ انتشار اور اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے، اورتقریبا ہر ہندوستانی خیمہ میں ظہر وعصر ایک ساتھ پڑھنے یا نہ پڑھنےپر ایسی گرما گرم بحث اورمعرکہ دیکھنے کو ملتا ہے جس پر شایدہم شیطان کو اگلے تین دن اس پرعلامتی رمی(رمی جمرات) کی شرمندگی بھلاکرجشن منانے کا سنہرا موقع دینے کا سبب بنتے ہیں۔اور اس بات پر حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ حج کی تربیت کے نام پر بعض علماء سمیت بیشترافراد دیگر اہم ترین امور کی طرف توجہ دیں یا نہ دیں لیکن اس اختلاف کو بیان کرنا شاید حج سے زیادہ باعث اجر سمجھتے ہیں۔

اس سلسلہ میں فقہ حنفی کے جائزہ ےاندازہ ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ مسجد نمرہ کے بجائے خیموںمیں نماز پڑھنے والوں کو دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھنے کے قائل ہیں لیکن صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد اپنے اپنے خیموں میں بھی اس دن دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تاکہ بعد میں یکسو ہوکر دعا کیلئے وقت مل سکے۔ تو کیا ملی اتحاد اور اجتماعیت کے پیش نظراس دن اس اختلاف کو پس پشت ڈالنا ممکن نہیں ؟

 جیسا کہ پہلے سے کوئی شرط نہ لگانے والے معتکف کو نماز جنازہ میں امام ابو حنیفہ شرکت کی اجازت نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود چند دنوں قبل ایک بڑے ملی قائد کی وفات پر بعض بڑے دینی اداروں سے منسلک علماء نے صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد کے قول پر عمل کرتے ہوئے نماز جنازہ میں شرکت کی اور اس کو نہ معیوب سمجھا اور نہ اس پر کوئی نکیر سامنے آئی،اسی طرح اس عظیم ملی اتحاد واجتماعیت کے موقع پر بھی صاحبین کے قول پر عمل کرلیں۔

**********

zakinoorazeem@gmail.com