سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ‎‎

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –6 MAY

15 شوال المکرم یوم شہادت
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج

          حضورﷺ کی آل اور صحابہ کرام کی محبت ہی ہمارے لیے نجات کا ذریعہ اور ہدایت کا معیار ہے، یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں کہ جن کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، انہیں مقدس اور بے مثال ہستیوں میں سے ایک صاحب عظمت و رفعت ہستی عم رسول اللہﷺ سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی ذات ہے۔ جو تمام صحابہ و شہداء میں ممتاز و نمایاں ہے۔

          نام ونسب:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ کا نام حضرت امیر حمزہ، کنیت ابو عمارہ، ابو یعلی، لقب اسد اللہ، اسد رسول اللہﷺ، والد کا نام عبد المطلب، والدہ کا نام ہالہ بنت وہب تھا۔

          آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف یہ ہے: حضرت امیرحمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب لوئی بن غالب(الیٰ آخرہ) والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے: حضرت امیر حمزہ بن ہالہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ۔

          ولادت باسعادت:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت حضورﷺ کی ولادت باسعادت کے دو سال پہلے ہوئی۔(اسد الغابہ)

          حلیہ مبارکہ:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ بہت حسین و جمیل تھے، خوبصورت پیشانی، درمیانہ قد، چھریرا (دبلا پتلا) بدن، گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں۔(تذکرہ سیدنا امیر حمزہ)

          قبول اسلام:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی  کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمدﷺ کے ساتھ  ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوش غضب میں آپے سے باہر ہوگئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے اور ابو جہل کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں،اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے اوراس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت عالمﷺ نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔(معجم کبیر،مستدرک)

          ازواج واولاد:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ نے متعدد شادیاں کیں،بیویوں کے نام یہ ہیں، بنت الملہ،خولہ بنت قیس،سلمی بنت عمیس، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے اولاد ہوئی،لڑکوں کے نام یہ ہیں، ابویعلیٰ، عامر،عمارہ، آخرالذکر دونوں لاولد فوت ہوئے،ابویعلی سے چند اولادیں ہوئیں لیکن وہ سب بچپن ہی میں قضا کرگئیں،اس طرح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسل شروع ہی میں منقطع ہو گیا۔(طبقات ابن سعد)

          ہجرت مدینہ:

      ٭ کفار مکہ ظلم و تشدد سے دو چار ہوکر حضورﷺ نے مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ میں ہجرت کر گئے۔

          اوصاف جمیلہ:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ بہادر، سخی، نرم مزاج والے، خوش اخلاق، قریش کے دلاور جوان اور غیر ت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔رسول اللہﷺ نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سید الشہداء ہی کے لئے تھا۔

          مشاغل:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ کو شعر و شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔سیرو سیاحت کرنا، شکار کرنا من پسند مشغلہ تھا۔(تذکرہ سیدنا امیر حمزہ)

          حضورﷺ کی بارگاہ میں مقام:

      ٭ حضورﷺ آپ سے بے حد محبت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرت حمزہ ہیں۔(معرفۃ الصحابۃ)

          زیارت جبریل کی خواہش:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرت جبریل علیہ السلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا:آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے اصرار کیا تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے، کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین حرم ِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرور عالمﷺنے ارشاد فرمایا:چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، آپ نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ حضرت جبریل کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے۔(الطبقات الکبریٰ)

          اسد اللہ و اسد رسول اللہﷺ:

      ٭ رسول اللہﷺ نے بوقت جنازہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَأَسَدَ اللهِ وأَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِﷺ یعنی اے حمزہ! اے رسول اللهﷺ! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسول اللہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے!(شرح الزرقانی علی المواہب)

          شہداء زندہ ہیں:

      ٭ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں بعض شہداء احد کی قبریں کھل گئیں تو دیکھا گیا  کہ شہداء احد کے اجسام بالکل تروتازہ تھے اور ان کے جسم میں خون کی روانی ہوتی نظر آتی تھی۔کسی شخص کا پھاوڑا غلطی سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاؤں پر لگ گیا تو ان کے پاؤں سے خون نکلنے لگا بلا شبہ شہداء زندہ ہیں۔

          فضائل ومناقب:

      ٭ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: گزشتہ شب جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت جعفر طیار جنت میں فرشتوں کیساتھ پرواز کر رہے ہیں اور حضرت حمزہ ایک عظیم تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔(المستدرک للحاکم)

      ٭ حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہونگے۔(مستدرک للحا کم)

      ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے فرمایا: جب سیدنا امیر حمزہ شہید ہوئے تو رسول اللہﷺ ارشاد فرمانے لگے: آپ کی جدائی سے بڑھ کر میرے لئے کوئی اور صدمہ نہیں ہو سکتا پھر آپﷺ نے حضرت فاطمہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: خوش ہو جاؤ! ابھی جبریل امین میرے پاس آئے تھے انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی کہ یقینا حضرت حمزہ کا نام مبارک آسمان والوں میں لکھا ہوا ہے حمزہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کے شیر ہیں۔(المستدرک للحا کم)

          شہادت و مدفن:

      ٭ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت 15 شوال المکرم 3ھ غزوہ احد میں 31 کفار کو جہنم واصل کرنے کے بعد ہوئی۔(معرفۃ الصحابۃ، ملخصا) آپ رضی اللہ عنہ کو ایک چادر میں کفن دیا گیا تھا وہ چادر لمبائی میں اتنی کم تھی کہ چہرے کو ڈھانپا جاتا تو پیر کھل جاتے اور پیروں کو ڈھانکا جاتا تو چہرے سے چادر ہٹ جاتی پس آپ کے چہرے کو ڈھانپ دیا گیا اور پیروں کو ڈھانپنے کے لیے اذخر نامی گھاس رکھ دی گئی۔ آپ کی نماز جنازہ حضورﷺ نے ستر مرتبہ پڑھائی اور آپ کو جبل احد کے پاس دفن کیا گیا۔