یہ کام حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –29  MAY

مرکزی وزیر برائے دیہی ترقیات و پنچایتی راج گریراج سنگھ موقع بے موقع کچھ نہ کچھ بولتے ہی رہتے ہیں۔اکثر معاملوں میں وہ صرف بولتے ہی نہیں ہیںبلکہ بولتے بولتے آگ اگلنے لگتے ہیں۔ پچھلے دنوں ان کے نشانے پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی تھے۔ایک موقع پر ایک صحافی نے گریراج سنگھ سے کہا کہ راہل گاندھی رائے پور میں کہہ رہے تھے کہ ان کو رہنے کے لئے گھر نہیں ہے ۔یہ سننا تھا کہ وزیر موصوف پورےفارم میں آگئے اور بول چلے تو بول چلے۔انھوں نے یہ کہنا شروع کیا ’’وہ سب کچھ تو ڈکار گئے۔اگر گھر نہیں ہے تو اندرا آواس لے لئے ہوتے  اور اگر وہ بھی نہیں ملا تو پی ایم آواس لے لو۔لیکن بھارت کو بدنام نہیں کرو۔‘‘ ظاہر ہے گری راج سنگھ وزیر ہیں۔ان کی سمجھ میں یہی ہے کہ وہ کچھ بھی بول دینے کا حق ضرور رکھتے ہیں۔غنیمت بس اتنی ہے کہ انھوں نے راہل گاندھی کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ نہیں دیا۔راہل گاندھی کی جگہ اگر کسی مسلمان کے حوالے سے انھیں کچھ کہنا ہوتا تو وزیر موصوف اسے پاکستان کا راستہ ضرور دکھا دیتے۔
راہل گاندھی کے گھر کا ذکر ہوا تو ایک اور بات یاد آ گئی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے مئی ،2018 میں ایک موقع سے کہا تھا’’2022 تک ملک کا ایک بھی آدمی بے گھر نہیں ہوگا۔ ‘‘ پتہ نہیں اس اعلان کو کس حد تک عملی جامہ پہنایا جا سکا ہے۔لیکن کئی ایسی ریاستیں ہیں، جہاں ابھی بھی لوگ فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ریاست بہار میں ایسے شہریوں کی تعداد نسبتاََ زیادہ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بہار میں اب بھی ایسے ہزاروں خاندان ہیں، جن کے پاس گھر تو بھلا گھر ہے، اپنا گھر بنانے کے لیے کوئی زمین بھی دستیاب نہیں ہے۔ترقی پذیر بہار میں رہنے والے یہ خاندان زمین کے ایک ٹکڑے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں پی ایم آواس یوجنا کا فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ حکومت کا یہ اصول ہے کہ جب تک گھر بنانے کے لیے کسی کے نام پر زمین نہیں ہوگی، وہ اسکیم کےفائدے سے محروم رہے گا۔
حکومت بہار ان دنوں اس معاملے میں کافی سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔ریاستی حکومت اپنی سطح سے ایسے بے زمین خاندانوں کو ان کے گھر کے لئے زمین فراہم کر رہی ہے۔ حکومت کے رکارڈ کے مطابق اس وقت ریاست میں 21597 ایسے خاندان ہیں، جو بے زمین ہیں۔ یعنی ان کے پاس زمین کے نام پر ’’نیل بٹے سناٹا‘‘ہے۔اس کا گواہ محکمہ ریونیو کا وہ خط ہے، جو محکمہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری برجیش مہروترا نے تمام ڈی ایم کو بھیجا ہے۔ سیتامڑھی ڈی ایم کے حکم کی روشنی میں مذکورہ خط پر مزید کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
  قابل ذکر ہے کہ ریاستی حکومت 2014 سے بے زمینوں کو زمین فراہم کر رہی ہے۔اس منصوبہ سے ہزاروں خاندان مستفید ہوئے ہیں۔ پھر بھی بے زمینوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی۔ پہلے سروے اور اراضی دستیاب کرانے کے بعد بھی ریاست میں 21 ہزار 597 خاندان ابھی تک اس منصوبہ کے فائدے سے محروم ہیں۔ حکومت نے ان اعداد و شمار کے ساتھ تمام ڈی ایم کو مطلع کر دیا ہے اور یکم اپریل 2023 سے پہلے دسمبر تک بے زمینوں کی فہرست میں شامل افراد کو زمین فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس ڈیٹا کو موبائل ایپ پر اپ ڈیٹ کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے بے زمینوں کا دوبارہ جائزہ لینے اور سروے کر کے حتمی اعداد و شمار فراہم کرنے کو کہا ہے۔ سیتامڑھی ضلع میں اس سمت میں کارروائی تیز کردی گئی ہے۔
  ایڈیشنل چیف سکریٹری مہروترا نے ڈی ایم سے کہا ہے کہ وہ ریونیو عملے سے نئے بے زمین خاندان کا سروے کرائیں۔ اس کام کو 30 جون تک مکمل کرنے کو کہا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حکومت نے ہر بے زمین کو 5-5  ڈسمل اراضی دینے کی ہدایت کی ہے، تاکہ وہ حکومت کی مالی مدد سے اپنا چھوٹا مکان بنا سکیں۔ سرکاری زمین نہ ہو تو خریدنی پڑتی ہے۔ تاہم، وہ زمین تالاب یا گڑھا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ زمین آبادی سے دور نہیں ہونی چاہیے۔ ایک ہی پلاٹ میں کئی خاندانوں کو زمین دستیاب کرانے کی کوشش کی جائے۔
  اس سلسلے میں حکومت کا ماننا ہے کہ بہت سے بے زمین لوگوں کو کاغذات دیے جاتے ہیں، لیکن وہ اس زمین پر قبضہ نہیں کر پاتے ہیں، جس کی وجہ سے جھگڑے کا امکان زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے تنازعات سے پاک زمین دستیاب کرائی جائے۔ حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ،جس زمین کو ٹائٹل دیا جائے گا، وہاں سڑک اور پینے کے پانی اور بیت الخلاء کا انتظام ضرور ہونا چاہیے۔ کیمپ لگا کر زمین کا پیپر تقسیم کرنے اور ضلع کے انچارج وزیر، انچارج سکریٹری اور پرنسپل سکریٹری کو اس پروگرام میں مدعو کرنے کو کہا گیا ہے۔ظاہر ہے یہ بہار حکومت کا ایک ایسا کام ہے، جسے ریاست کے غریب عوام کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ویسے یہ کام تو حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
***************************