TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –3 JUNE
محمد حسن،
ایمسٹرڈیم، دی نیدرلینڈز
اردو زبان کی تاریخ کا جائزہ لینے سے تاریخ نویسوں میں متعدد معاملات میں تضاد پائے جاتے ہیں۔ کسی کسی تاریخ نویس کا تجزیہ یہ ہے کہ ترکی زبان میں اردو کے معنی لشکر یا رسالے کے ہیں۔وہ اپنی دلائل میں اس بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مغلیہ دورِ حکومت میں فوجیوں میں نظم و ضبط کی بہتری اور مواصلاتی نظام میں استحکام پیدا کرنے کے لئےایک نئی زبان کی تشکیل کے بارے میں غور و خوض کے پیشِ نظر سنسکرت، فارسی، عربی، ترکی سمیت دوسری دیگر علاقائی زبانوں کے اشتراک سے ایک نئی طرز ِزبان کو متعرف کیا گیا جسے آج ہم اردو کے نام سے جانتے ہیں۔
دوسری طرف برصغیر میں اردو پر اتھارٹی رکھنے والی شخصیت شمس الرحمن فاروقی ان تمام دلیلوں کی نفی کرتے ہوئے اپنے گہرے مطالعہ اور تحقیق کے بعد۲۰۰۷ میں انگریزی میں ایک مقالہ “اردو ادبی ثقافت: ہم آہنگی کی روایت” میں اس نتیجہ کا اخذ کیا کہ”حقیقت میں، لفظ “اردو” کا مطلب لشکر نہیں ہے۔ہندوستان میں اس کا اصل مطلب شاہی دربار” ہے۔ اس بارے انہوں نے 1897میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کے ایک مقالہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر جان گلکرسٹ نےاپنے مضمون میں اس بات کا واضح طور پر ذکر کیا کہ سولہویں صدی کے اواخر میں شہنشاہ اکبر کی عدالتی زبان اردو تھی ۔شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مقالہ میں مزید بتایا کہ “اس اصطلاح کا اطلاق شاہی دربار یعنی شاہجہان آباد پر ہوتا رہاکیونکہ 1648 میں شاہ جہاں نے اس شہر کو دارالحکومت قرار دیا اور شاہجہاں آباد کی عدالتی زبان اردو تھی یعنی وہ زبان جواس وقت ہندی یا ریختہ کے نام سے جانی جاتی تھی”۔
ایک طرف جب اردو لشکری زبان ہے یا درباری زبان اس بات پر اسکالروں میں تضاد ہے تو دوسری طرف اس زبان کی اپنی ریاست کون سی ہے، یہ بھی ایک معمہ ہے۔ اگر ہم شمس الرحمن فاروقی کے مقالہ پر غور کریں تو اردو شاہجہاں باد میں پیدا ہوئی جو اب دہلی ہے۔ پھر اس زبان نے اپنا لڑکپن لکھنؤ اور گرد و نواہ میں گذارا، جوانی دکن میں گذری اور اسی طرح دھیرے دھیرےہندوستا ن کے تقریباً تمام صوبوں میں اپنےسفر کا احاطہ کرتے ہوئے برِ صغیر میں پھیل گئی۔ اس زبان کے عاشق کو کسی سرحد میں کوئی بھی قید نہیں کرسکتا۔ ہاں یہ تو ضرور ہے اس زبان کومختلف ادوار میں سیاست کی بیھنٹ چڑھایا گیا۔ جس کی وجہ سے اس زبان کے بولنے والوں کو بہت ساری اذیتیں برداشت کرنی پڑیں جوبعض علاقوں میں ہنوز جاری ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مختلف وجوہات اور برِ صغیر کی سیاست نے اردو کو کافی ضرب پہنچایا۔1947 میں تقسیمِ ہندکے بعد برِ صغیر میں مذہب اور زبان کے حوالے سے سیاست نے یہاں کے عوام کے درمیان ہم آہنگی کو بیحد متاثر کیا۔ مذہب کے وجود کا اپناایک خاص طریقہ کار ہے جس سےان مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کی بقاء کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔ اس لئے کسی بھی مذہب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیناکوئی آسان کام نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ لیکن زبان کا تعلق عوام، اربابِ اختیاراور ملک کی انتظامیہ سے ہے۔ اگر کوئی ملک کسی بھی زبان کے بارے میں یہ ٹھان لے کہ اسے اپنے سرحد سےناپید کرنا ہے تو اس ملک کے لئے یہ کوئی کٹھن کام نہیں۔ اس لئے کہا یہ جاتا ہے کہ اگر کسی قوم یا کمیونٹی کو ختم کرنا ہے تو اس سے اس کی زبان چھین لی جائے تو وہ قوم یا کمیونٹی خود بخودختم ہوجائیگی۔ جس کی وجہ سے اقوامِ متحدہ کی تنظیم برائے تعلیم، سائنس اور ثقافتی امور (یونیسکو) کا قیام عمل میں آیا۔ اس تنظیم کا منشا ہے کہ ” تعلیم، سائنس، ثقافت، مواصلات اور معلومات کی فروغ کے ذریعہ بین الثقافتی مکالمے کو یقنی بنائے جائیں تاکہ غربت کے خاتمے، پائیدار ترقی نیز دنیا میں امن کے قیام میں ہر خاص و عام اپنا حصہ ڈال سکے”۔ اس منشے کی حصولی کے لئے یونیسکو نے جو لائحہ عمل تیار کئے ہیں وہ یہ ہیں:
سبھوں کے لیے معیاری تعلیم کویقینی بنانا اور تادمِ مرگ سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا
پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لئے سائنس پرمبنی علوم اور پالیسی پر عمل درآمد
ابھرتے ہوئے سماجی اور اخلاقی چیلنجوں سے نمٹنا
ثقافتی تنوع، بین الثقافتی مکالمے کو فروغ دینااورقیامِ امن پر خاص توجہ مبذول کرنا
معلومات اور مواصلات کے فروغ کے ذریعہ جامع علمی معاشرہ کی تعمیر وغیرہ۔
یونیسکو کے قیام کے بعداس نے دنیا کے مختلف ملکوں میں تہذیب و تمدن، زبان وثقافت جن میں قدیمی تعمیرات،علمِ فنون، رسم الخط اوردستاویزات سمیت مذہبی ورثے کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے۔ یونیسکو کے زیر انتظام ایک بین الاقوامی کنونشن کےتحت ان تمام غیر معمولی مقامات کے قانونی تحفظ کو یقینی بنانے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ یونیسکو نے ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ دنیا سے ہر دو ہفتے میں ایک زبان ناپید ہورہی ہے۔اگر یہ صورتِ حال جاری رہیں تو اس صدی کے اختتام تک پوری دنیا سے تقریباً 3000 زبانیں ختم ہو سکتی ہیں۔ اس تشویش ناک حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے اس تنظیم نے زبانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے 1999 میں بنگلہ دیش کی لسانی تحریک کو بین الاقوامی طور پرتسلیم کرتے ہوئے 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا ہے جبکہ 2022 تا 2032 کی دہائی کو مقامی زبانوں کی بین الاقوامی دہائی بھی قرارد یا۔
بنگلہ دیش میں اردو ایک ایسا موضوع ہےجو زیر بحث ہے اور اس کے بارے میں ملک میں کوئی خاص تحقیقی سرگرمیاں سامنے نہیں آئیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ خطہ جسے مشرقی بنگال کہا جاتا تھا بعد ازاں مشرقی پاکستان میں اردو کے لئے بہت ساری سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ اس مدت کا احاطہ ہم 1971 تک کرسکتے ہیں ۔کیونکہ اس زمانے میں اردو شاعر و ادیب، صحافی و محقق، اساتذہ و پروفیسر حضرات بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ ا ردو زبان کی آبیاری کے لئے اپنی اپنی خدمات انجام دیں جو کہ قابلِ ستائش ہیں۔ لیکن جب بنگلہ دیش جو زبان کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا بلکہ اردو مخالف آئیڈیولوجی کےتحت ملک کوآزادی حاصل ہوئی تو یہاں اردو زبان کو زبردست دھچکا پہنچا اور لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے۔آزادی کے بعد ہی بعد ملک کے تمام اردو اسکولوں اور کالجوں کو بنگلہ میڈیم میں تبدیل کردیا گیا۔اردو لائبریریوں کولوٹ لیا گیااور اردو کی نادر اثاثوں کو نظرِ آتش کردیا گیا۔ بیشمار اردو بولنے والوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو نقلِ مکانی پر مجبور کیا گیا۔اس طرح وہ راندۂ درگاہ ہو کر رہ گئے۔جن کی جان بچ گئی ان میں اکثریت کو پناہ گزنیوں کے کیمپوں میں ایک غیر انسانی زندگی گذارنے کے لئے منتقل کردیا گیااور انہیں بنیادی حقوق سے محروم ہونا پڑا۔
ان تمام واقعات کو برِ صغیر کی تاریخ کے صفحات سے مٹا دئیے گئے اور ان تمام باتوں سے اب کسی کو کوئی دلچسپی بھی نہیں۔26 مارچ 1971 کو بنگالیوں نے پاکستان فوج کے خلاف باقاعدہ جنگ کاآغاز کیا۔ جس کے پیش نظر مشرقی پاکستان کے انتخاب میں فتح حاصل کرنے والے امیدواروں کی کثیر تعداد بنگالی سیاسی رہنماؤں نے بھارت میں پناہ لی اور بھارت حکومت کی مدد سے10 اپریل 1971 کو ایک جلا وطنی حکومت قائم کی۔ جس کا صدر دفتر کلکتہ میں تھا۔ 17اپریل 1971 کو جلا وطنی حکومت کے اراکین نے بنگلہ دیش کے مجیب نگر، کشٹیا میں حلف برداری کی رسم ادا کی۔ اس دوران انہوں نے ایک عبوری دستور کی منظوری بھی دی۔اس عبوری دستور کے بنیادی اصولوں میں مساوات، انسانی اقدار اور سماجی انصاف کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔اسی بنیادی اصولوں کے جذبہ سے سرشار ہوکر مجاہدین آزادی نے جنگ لڑیں اور فتح حاصل کی۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ فتح کے بعد 1972میں تیار کئے گئے دستور میں بنیادی اصولوں میں بڑی تبدیلی لائی گئی۔ دستور میں نیشنلزم، سوشلزم،ڈیموکریسی اور سیکولرزم کو بنیادی اصول قرار دیا گیا۔
دستور میں نیشنلزم کی تشریح کے حوالے یہ بتایا گیا کہ بنگلہ دیش کے تمام شہری بنگالی ہیں۔جب اس اصول کی تشریح کا تذکرہ اس وقت کے پارلیمان میں کیا گیا تو پارلیمان میں نسلی اقلیت چکماکے نمائندہ منابندر نارائن لارما نےنسلی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دستورکے مسودے کے خلاف احتجاج کیا۔ کیونکہ اس دستور میں بنگلہ دیش کے غیر بنگالیوں کی نسلی اور لسانی شناخت اور ثقافت کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔
آج بھی بنگلہ دیش میں نیشنلزم کی تشریح کے حوالے سے دوبڑی سیاسی جماعتوں میں نظریاتی تناؤ مخالف سمت میں عیاں ہے۔ بنگلہ دیش عوامی لیگ کا یہ ماننا ہے کہ نیشنلزم کے معنی بنگالی نیشنلزم ہے جو زبان کی بنیاد پرہے اور اسی وجہ سےدستوری اعتبار سے ملک میں دوسری زبانیں بولنےوالوں کا کوئی حق نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگرنسلی یا لسانی اقلیتوں کو ملک میں رہنا ہےتو انہیں بنگالی بن کر ہی رہنا پڑے گا جبکہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کا ماننا ہے کہ نیشنلزم کے معنی بنگلہ دیشی کےہیں اور ہر زبان و نسل کے لوگ اپنی شناخت کے ساتھ ایک بنگلہ دیشی کی حیثیت سےیہاں رہ سکتے ہیں۔مذکورہ پس منظر میں بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعدہی زبان کی حیثیت سے صرف اردو ہی نہیں بلکہ دوسری دیگر زبانیں جن میں چکما، مرما، منی پور، سنتالی، گارو اورکھاسی قابل ذکر ہیں کو سرکاری طور پر عدم سرپرستی کا سامنا رہا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں 36 نسلی اقلیتی زبانیں اور 6 غیر نسلی اقلیتوں کی زبانیں موجود ہیں جن میں زیادہ تر زبانیں اب اپنی آخری سانس لے رہی ہیں۔ اس لئےکہ زبان کا تعلق اربابِ اختیار کی سرپرستی اور اقتصادیت سے جڑی ہے۔وہ زبانیں کبھی زندہ نہیں رہ سکتی جس کے سیکھنےسے انفرادی طور پر انسان کو اقتصادی اعتبار سےکوئی فائدہ نہیں۔ لیکن خوش کن خبر یہ ہے کہ متعدد بین الاقوامی دباؤ اور خاطر خواہ ایڈوکیسی نیز نسلی اقلیتی تنظیموں کی سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کی وجہ سے بنگلہ دیش کی حکومت نے 2017 میں چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں ان کی زبان میں تعلیمی سلسلہ کاآغاز کیا۔ اس ضمن میں متعلقہ وزارت نے 5 مقامی زبانوں میں نصابی کتابیں تیار کیں اوراس زبان سیکھنےکے خواہشمند بچوں کے درمیان یہ کتابیں تقسیم کی جارہی ہیں۔ تاہم اب بھی ملک میں نسلی اور لسانی بھید بھاؤ کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔
اردو کی درس و تدریس سے متعلق ملک کے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح میں عام طور پر کوئی سہولت دستیاب نہیں لیکن ڈھاکہ یونیورسٹی اور راجشاہی یونیورسٹی میں شعبئہ اردوقائم ہے۔1971 کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں پروفیسرڈاکٹر کنیز بتول، پروفیسرڈاکٹرام سلمہ، پروفیسرڈاکٹر کلثوم ابولبشر، پروفیسر ڈاکٹر زینت آراء شیرازی اور راجشاہی یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹرکلیم سہسرامی، پروفیسر ڈاکٹرعبد الطیف اورپروفیسر ڈاکٹرشمیم احمد جیسے اردو خدام نے اردوزبان و ادب کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دیں۔دونوں یونیورسیٹیوں کے باقی ماندہ اردو اساتذہ اپنی کوششیں جاری رکھے ہیں۔ چونکہ ان تمام اساتذہ کی مادری زبان بنگلہ ہے اور بنگلہ دیش میں اردو کے حوالےسے کوئی سازگار ماحول نہیں جہاں وہ اردو میں گفتگو کرسکیں۔ اس لئے موجودہ اساتذہ کو اردو میں بات چیت کرنے نیزروانی کے ساتھ اردو لکھنے پڑھنے میں مشکلات کا سامنا ہے پھر بھی وہ حتی المقدور اپنے طلبہ کی سرپرستی کررہے ہیں تاکہ طلبہ کے درمیان اردو کے حوالے سے دلچسپی میں اضافہ ہو۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 2020 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کےشعبئہ اردو نے سو سال مکمل ہونے پر بین الاقوامی سیمینار اور عالمی مشاعرہ کا اہتمام کرتے ہوئے صد سالہ جشن منایا ۔
بنگلہ دیش کےبیشتر مدرسوں میں اردو کی تعلیم جاری ہے۔ قیاس یہ کیا جاتا ہے کہ اردو اور فارسی زبانوں میں جس طرح کے مذہبی کتب دستیاب ہیں بنگلہ میں اس طرح نہیں۔ دوسری طرف علماء کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر طلبہ اردو سیکھ لیتے ہیں تو انہیں بنگلہ ترجمہ پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑےگی۔ کیونکہ بنگلہ زبان میں مخرج کے مسائل ، تنگ الفاظ نیز املے اور جملے کی وسعت نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر سمجھنا مشکل ہے ۔ جس کی وجہ سےمذہبی طورپر بہت سارے مسائل کا حل ممکن بھی نہیں۔ اس لئے مدرسوں کےمدرس کی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ طلبہ باقاعدہ اردو زبان سیکھیں اور براہِ راست عربی و اردو زبان میں مذہبی کتب بینی کریں۔ گویا کہ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں اردو مدرسوں میں زندہ ہے۔ جس سے اردو ادب کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔چند تاریخی پس منظر کے بنیاد پرریڈیو بنگلہ دیش جسے بعد میں بنگلہ دیش بیتار کے نام سے منسوب کیا گیا میں چھ زبانوں پر مشتمل بیرونی سروس جاری رہیں۔ ان میں عربی،پنجابی، اردو، ہندی، نیپالی اور انگریزی زبان شامل ہیں لیکن پنجابی زبان میں خاطر خواہ آرٹسٹ نہ ملنے کی وجہ سے 80 کی دہائی کے شروع میں ہی اس سروس کو بند کردیا گیا ۔ جبکہ دوسری دیگر زبانوں کےلئے ہر روزآدھہ گھنٹہ مختص رہا۔ اردو سروس میں راقم الحروف نے باحیثیت مترجم اور نیوز کاسٹر15 برس تک کام کئے۔حالیہ پاکستان کے ساتھ سردسفارتی تعلقات کے مظاہرہ کے پیشِ نظر پھر سے ایک بار اردو کو اعتاب کا شکار ہونا پڑا اورمئی 2019 میں حکومت نے اس سروس کومکمل طور پربند کرنے کاا علان کیا۔حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف ڈھاکہ یونیورسٹی شعبئہ اردومیں پی ایچ ڈی کےطالب علم عبد السلام نے مخالف ماحول میں لہر کے خلاف کھڑے ہو کر اپنی آواز بلند کی۔ اس وقت انہوں نے بنگلہ دیش بیتار میں اردو سروس کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کو براہِ راست ایک درخواست جمع کروائیں جو اپنی نوعیت میں ایک تاریخ ہے۔
بنگلہ دیش میں اردو بولنے والوں میں دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو ملک کے اصل دھارے میں رہتے ہیں۔ اچھی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان میں بہت ہی کم تعدادمیں ایسے لوگ ہیں جنہیں اردو یا اردو والوں سے الفت ہو بلکہ وہ خود کو اردوکے نام سے پہچان کروانے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں ۔ دوسری طرف کثیر تعداد میں لوگ کیمپوں کی زندگی گذر بسر کررہے ہیں۔ ان لوگوں میں زیادہ تر مسخ شدہ اردو بول لیتے ہیں بلکہ یہ لوگ اربنگ (اردو اور بنگلہ زبان کا آمیزہ)استعمال کرتے ہیں۔یہ لوگ اردو لکھنے اور پڑھنے سے قاصر ہیں۔ یہ بات بھی قارئین کو بتاتا چلوں کہ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے بعد اردو بولنے والی کمیونٹی پر ایک ایسی لیڈرشپ مسلط ہوئی جنہوں نے اس کمیونٹی سے تعلیم چھین لی اور تعلیم کے بغیر ایک انسان صرف معزوری کی زندگی گذر بسر کرسکتا ہے جو کیمپ کےلوگوں کی زندگی کی عکاسی ہے۔خیر بنگلہ دیش میں چند ایسے لوگ ہیں جنہیں زبانِ فہمی کا شوق ہے اور وہ اس زبان بلکہ اس کی شاعری سے آشنا ہو نا چاہتے ہیں لیکن اس سے ایک زبان کی بقاء کے لئے جس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے اس ضمن میں سنجیدگی کے ساتھ کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے۔ اس لئے بنگلہ دیش میں اردو ادب کا ایک روشن ماضی تو موجود ہےلیکن اس کا روشن مستقبل نہیں۔بنگلہ دیش میں اردو ادب ختم ہوسکتا ہے لیکن اردو زبان کبھی ختم نہیں ہوگی کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی زبان کے بولنے والا ایک بھی شخص زندہ ہے تو وہ زبان نہیں مرتی۔ اسی لئے بنگلہ دیش میں اردودیگر صورت میں زندہ رہے گی۔ اردو کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ جاذب زبان ہے اور یہ مختلف زبانوں سے لفظوں کو جذب کر کے اپنے اندر سمو لیتی ہے اور اس کا کارواں جاری وساری رہتاہے۔
آخر میں ہمیں امید ہے کہ بنگلہ دیش کے اہل دانش نیز بین الاقوامی برادری بنگلہ دیش میں اردو کی بقاء کے لئے سامنے آئینگے اور اس کی ترقی و ترویج کے لئےاقدام کرینگے۔
*****************
ای میل: hasanhr@gmail.com