گائے پالنا اور اسے ایک جگہ سے کہیں دوسری جگہ لے کر جانا کوئی جرم نہیں؛الہ آباد ہائی کورٹ

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –6 JUNE

لکھنؤ،، 06 جون: الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش گائے ذبیحہ ایکٹ کے تحت ریاست کے اندر صرف گائے پالنا اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ کہیں لے کر جانا کوئی جرم نہیں ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق زندہ گائے بیل یا گائے کے نقل و حمل کو اتر پردیش کی حدود میں ’اتر پردیش پریونشن آف کاؤ سلاٹر ایکٹ، 1955ء‘کے تحت جرم قرار دینے یا اس کی حوصلہ افزائی یا کوشش کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ جسٹس وکرم ڈی چوہان کی بینچ نے اس سال مارچ میں ایک گاڑی سے6 زندہ گایوں کی مبینہ بر آمدگی کے سلسلے میں گرفتار کندن یادو کو ضمانت دیتے ہوئے مذکورہ تبصرہ کیا۔ خیال رہے کہ اس طرح بہت سارے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور بعض معاملات میں معاملہ پولیس اسٹیشن تک نہیں جاتا بلکہ بھیٹر خود ہی فیصلہ کر دیتی ہے۔کندن یا دو کے خلاف اتر پردیش پریونشن آف کا ؤ سلاٹرا پیکٹ کی دفعہ 3/8 (B/5, A/5) اور جانوروں پر ظلم کے روک تمام ایکٹ 1960ء کی دفعہ اور کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔ مذکورہ معاملے میں عدالت نے نوٹ کیا کہ اے جی اے نے ریاست کی جانب سے پیش ہونے والے کسی بھی ایسے مواد کو ریکارڈ پر نہیں رکھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ درخواست دہندہ نے اتر پردیش میں کسی بھی جگہ کسی گائے، بیل یا بیل کو ذبح کیا ہے یا اسے ذبح کرنے کی کوئی کوشش بھی کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اتر پردیش کے اندر صرف گائے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانے کا عمل مذکورہ قانون کے دائرہ کار میں نہیں آئے گا۔ عدالت نے واضح کیا کہ نہ یہ جرم ہے، نہ ہی جرم کی حوصلہ افزائی ہے اور نہ ہی اسے جرم کرنے کی کوشش کے مترادف کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔مذکورہ معاملے میں عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ گائے یا اس کی نسل کو کوئی جسمانی چوٹ پہنچانے کیلئے کوئی ایسی شے بھی برآمد نہیں کی گئی، جس سے اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔ نہ یہ ثابت کرنے والا کوئی گواہ ہے کہ درخواست گزار نے کسی گائے یا اس کے بچھڑے کوکوئی جسمانی چوٹ پہنچائی ہو جس سے اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوا ہو اور مجاز اتھارٹی کی جانب سے کوئی ایسی رپورٹ بھی پیش نہیں کی گئی کہ گائے یا اس کی اولاد پر کوئی چوٹ لگی ہو۔عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ پولیس نے یہ استدلال نہیں کیا ہے کہ ملزم نے تفتیش میں تعاون نہیں کیا ہے یا ضمانت پر رہا ہونے پر وہ شواہد یا گواہوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے، یا یہ کہ وہ عوام یا ریاست کے وسیع تر مفاد میں ضمانت کا مستحق نہیں ہے۔ مذکورہ بالا شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے، عدالت نے بادی النظر میں درخواست گزار کو بے قصور مانتے ہوئے اسے ضمانت دے دی۔جسٹس و کرم ڈی چوہان کی بینچ نے یہ بھی کہا کہ گوشت یا گوشت سے بنی اشیاء کی فروخت یا محض نقل و حمل کو ذبیحہ ایکٹ کے تحت قابل سزا نہیں سمجھا جاسکتا، جب تک کہ ٹھوس ثبوت سے یہ واضح نہ ہو جائے کہ مذکورہ شے گائے کا ہی گوشت ہے یا اس سے بنی شے ہے۔واضح رہے کہ ایسے ہی ایک معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش پریونشن آف گاؤ ذبیحہ ایکٹ کے تحت درج مقدمہ کے ایک ملزم کو یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی تھی کہ استغاثہ ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ برآمد شدہ مادہ، گائے کا گوشت ہے یا گائے کے گوشت سے بنی کوئی شے ہے۔