تاثیر،۲۹فروری ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واکرم بنایا ہے۔اس کی فطرت میں نیکی و بدی، بھلائی و برائی ، تابعداری وسرکشی اور خوبی وخامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیںیکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ چنانچہ کسی انسان سے اچھااور برا دونوں ہی طرح کے اعمال ممکن ہیں۔اس کے باوجود ایک انسان سیئات ومعصیات سے خود کو الگ کرکے اپنی زندگی کو حسنات وطاعات سےآراستہ کرلے تو یہ اس کے کامیاب ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہی وہ تقویٰ وپرہیزگاری ہے، جو روزہ کا اصل مقصدہے۔ اللہ تبار ک و تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے: ’’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے۔‘‘ (البقرۃ: 183۔184)
امروز و فردا میں ہم شعبان المعظم کے آخری عشرے میں داخل ہو جائیں گے۔یعنی رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ گویا یہ مہینہ نیکیوں اور طاعات کے لئے موسمِ بہار کی طرح ہے۔ رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ جب رات کو قیام (تراویح) اسی جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے۔ اس ماہ کی ایک رات، جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔
رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل (سنت مؤکدہ) کیا گیا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرنے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کرائے، ہاں! اگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے، جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ پورا سال جنت کو رمضان المبارک کے لئےآراستہ کیا جاتا ہے۔ عام قانون یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’روزہ صرف میرے لئے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھا کرتے اورخطبہ دیتے، جس میں انھیں رمضان کی آمد کی خوش خبری سناتے تھے۔انھیں رمضان کی فضیلت اور اہمیت سے روشناس کرتے ۔انھیں ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر اس طرح تیار رہنے کی تاکید کرتے کہ کہیں کوئی اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے محروم نہیں رہ جائے۔اس اسوۂ رسول ﷺ کا تقاضہ ہے کہ ہم بھی رمضان کی آمد کا انتظار اسی شدت کے ساتھ کریں جیسا کہ ہم سے پہلے کے لوگ کیا کرتے تھے اور ہم بھی اس کے لئے اسی طرح تیار رہیں، جس طرح تیار رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
گرہم رمضان کے استقبال کے لیے پوری طرح تیار ہیں تو ہمیں چند باتوں کا لحاظ کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے نفس کو آمادہ کریں کہ اس ماہ مبارک میں امور خیر انجام دینے کے لئے عملی اقدام کریں گے۔ اس سلسلے میں نبی کریمﷺ سے منقول دعاؤں کا اہتمام کریں گے۔اللہ تبارک و تعالیٰ سے توبہ واستغفار کا اہتمام کریں گے، کیوں کہ توبہ میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتا ہے ۔گناہوں کا جو فاصلہ انسان اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے، وہ ختم ہوجاتا ہے۔ نیک کاموں کی طرف رغبت بڑھتی ہے، جو رمضان کے دیگر عبادات میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ گزشتہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تو اُنھیں فوراً شعبان کے مہینے میں ہی ادا کر لیا جانا چاہئے۔ رمضان المبارک کے تئیں آغاز ہی میں ہی ڈھیر سارے نیک اعمال کی نیت کر لی جانی چاہئے ۔ مثلا ً غور و فکر کے ساتھ تلاوت قرآن کی کثرت، گناہوں سے توبہ کا اہتمام، دعاواذکار کی پابندی، عبادات کا التزام، لوگوں سے بہتر معاملات، دینی وتربیتی کتابوں کا مطالعہ، رمضان سے متعلق دینی بیانات جو سی ڈی وغیرہ کی شکل میں ہوں تو ان کا سننا تاکہ رمضان کا احساس دل میں ترو تازہ رہے اور اس کی تیاری پرتوجہ ہوسکے۔
شیخ ابوبکرالبلخیؒ فرماتے ہیں:’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینہ ہے، ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینہ ہے اور ماہ رمضان فصل کٹائی کا مہینہ ہے۔ اسی طرح ماہ رجب کو ہوا، شعبان کو غیم اور رمضان کو بارش سے تعبیر کرتے ہیں۔ جس نے اعمال کی کھیتی کے موسمِ بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اور ماہ رجب میں اس کا پودا نہیں لگایا اور شعبان میں اسے سیراب نہیں کیا تو وہ ماہ رمضان میں فصل کی کٹائی بھلا کیسے کرسکتا ہے۔ اگرماہ رجب گزر گیا ہے تو کم ازکم شعبان کے بچے ہوئے دن سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبیﷺ اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘‘الغرض آئیے ہم سب صدق دل سے عمل کرنے کی نیت کے ساتھ رمضان المبارک کے تمام تر تقاضوں کی جانب اپنے اہل خانہ کی توجہ دلاتے ہوئے آج سے ہی اس سلسلے کی تیاری میںلگ جائیں !
**********************