تاثیر،۱۵فروری ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
شرم و حیا،عفت و پاکیزگی ایک مسلمان کی بنیادی شناخت اور اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔اسلام نے جو معاشرتی نظام تشکیل دیا ہے ،اس میں شرم و حیا اورعفت و پاکیزگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’حیا ‘‘ایمان کا ایک بنیادی شعبہ ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا :’’جب تم حیا کو کھودو،تو پھر جو چاہے کرو۔‘‘یعنی انسانی زندگی سے اگر شرم و حیا معدوم ہوجائے تو ایسی زندگی کی کوئی قدرومنزلت نہیں رہ جاتی۔لہٰذا، اللہ تعالیٰ نےانسانوں کے لئے جن کئی امتیازی خوبیوں کا تعین کیا ہے ، ان میں سے ایک ’ حیا‘ بھی ہے۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ جب حیا ختم ہو جائے تو انسان کو من مانی کرنے سے کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی۔یعنی اگر کسی انسان کے اندر سے حیا نکل جاتا ہے تو پھر اس کا ایمان بھی اس سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔ حیا کے نکل جانے سے جس کا جو دل چاہتا ہے کرتا ہے، حرام حلال کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔ پھر دھیرے دھیرےجھوٹ ، فریب، بے ایمانی ،چوری، ڈکیتی، سود خوری ،رشوت خوری، ملاوٹ اور اخلاقی گراوٹ جیسی بے شمار غیر انسانی خصلتیں انسان کی رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہیں۔ ساتھ ہی مقدس رشتوں کی پاسداری کا احساس بھی ختم ہو جاتاہے۔
اسلامی معاشرے کا تقاضہ ہے کہ تمام افراد خواہ وہ مرد ہوں یاعورتیں،بچے ہوں یا بڑے سب کے سب ایسا طرزِ زندگی اختیار کریں ، جس سے حیا داری ظاہر ہو۔ جیسے آنکھوں کی حفا ظت کرنا ،زبان کو غلط باتوں سے روکنا، گفتگو میںمناسب الفاظ کا انتخاب کرنا ، رازوں کی پردہ داری کرنا،ساتھ ہی ایسے واقعات کو بھی پس پردہ رکھنا ، جن کے پتہ چل جانے سے کسی فرد یا جماعت کی حیا کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حیا ایک مستقل صفت ہے اور اس کا دوسری صفات سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حیاکا تعلق فقط خواتین سے ہے اور مرد حضرات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حیا کا تعلق اخلاقی صفات اور نفسیاتی خصوصیات کے حامل، معاشرے کے ان تمام افراد سے ہے،جن سے انسانیت کی آبرو کی محفوظ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو گناہ کر لینے کے بعد توبہ کا حکم دیا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی گناہ کر لے تو اس کے گناہوں کو چھپایا جائے اودوسروں کے سامنے اس کا اظہانہیں کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے سامنے اظہار کرنے سے اس کا دل سخت اور فطرت میں تلخی پیدا ہو جائے۔کسی کے گناہ یا عیب کی پردہ پوشی کرنا اسے نہ صرف سرکشی اور تکبر سے نیز نفس امارہ کی پیروی سے رووکتا ہے بلکہ اس کو صراط مستقیم کی طرف بھی مائل کرتا ہے۔کبھی انسان گناہوں سے اس لیے بچتا ہے کہ وہ اپنے رب سے خوف کھا رہا ہوتا ہے اور کبھی کچھ چیزوں کو اس لئے چھوڑ رہا ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ سے حیا کر رہا ہوتا ہے۔اور یہی حیا کا اعلی درجہ ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذاتی زندگی میں قدم قدم پر حیا کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچیوں سے زیادہ حیا کرتے تھے ،ا ٓپﷺ نظروں کو جھکا کر چلتے تھے۔بعض مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری جانب متوجہ ہو جایا کرتے تھے گویا آپ نے وہ باتیں سنی ہی نہیں تاکہ اس کے ذریعے حیاء کی حفاظت کی جا سکے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:حیاء مکمل بھلائی ہے۔ یہ فرمان مبارک اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ حیاء کی ہر شکل اور ہر تفصیل اہل ایمان کے لیے رہنما ہے، چاہے وہ لوگوں سے معاملات کرنے میں ہو،ان کے لباس کے بارے میں ہو،طرز زندگی میں ہو یا گفتگو کے دورانا لفاظ کے انتخاب میں ہو۔
لباس اور حجاب کے تعلق سے اگر بات کی جائے تو اس معاملے میں اپنے معاشرے کا حال بہت اچھا نہیں ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سے معاشرے میں جو آلودگی پھیل رہی ہے، اس پر قابو پانا آج کے دور کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ مغربی تہذیب کے تعاقب میں جس کا جو دل چاہتا ہے، پہنتا ہے۔لباس کا اولین مقصد انسان کی ستر پوشی نہیں رہ گیا ہے۔وہ بہت حد تک بے حیائی کا سبب بن گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی اس طرح کا لباس رائج ہو گیا ہے، جسے دیکھ کر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔اس حیا اور اس حجاب کی قیمت کوئی کرناٹک کی اس باحجاب، با حیا طالبہ مسکان سے پوچھے، جس نے اپنی حجاب کے خاطر درجنوں انسان نما بھیڑیوں اور گیدڑوں کے آگے بالکل ہی نہیں گھبرائی بلکہ ان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرکے دنیا کی تمام با حجاب خواتین کی آواز بن گئی۔
یا درکھئے والدین کے اعمال و اخلاق کا اولاد پر بہت اثر پڑتا ہے، اگر ہم شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوں گے تو ہماری اولاد بھی ان ہی صفات و خصائل کی حامل ہوگی اوراگر ہم شرم و حیا کا خیال نہیں رکھیں گے تو ہماری اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ یقین جانیں، اللہ تعالیٰ پاکباز اور حیا والے کو پسند کرتا ہے۔انسان کو ایسے تمام امور سے بچنا چاہئے، جو اللہ کو پسند نہیں ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے، شرم و حیا اور عفت و عصمت کا خاص اہتمام کرتے ہوئےاصلاحِ نفس اور اصلاحِ معاشرہ کی بھرپور جدوجہد کی جائے۔یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے۔
*********************