حقِ رائے دہی کا صحیح استعمال دینی فریضہ ہے

تاثیر،۲۵       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

وطن عزیز بھارت کی،  543 ارکان پر مشتمل،  18ویں لوک سبھا کی تشکیل کی کارروائی الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔اس کے لئے 7 مراحل پر محیط انتخابات کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں ملک کی 102 سیٹوں کے لئے ووٹنگ گزشتہ جمعہ یعنی 12 اپریل کو ہو چکی ہے۔ آج انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ملک کی 13 ریاستوں کی  88   سیٹوں کے لئے صبح 6 بجے سے ووٹنگ ہو نے والی ہے۔ ملک کے ان لوک سبھا حلقوں میں ووٹنگ ہونے والی ہے یا ابھی ہو رہی ہے، جہاں سے بحیثیت ووٹر آپ کا تعلق ہے تویہ بات آپ کو اچھی طرح یاد رہنی چاہئے کہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال آپ کو لازمی طور پر کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ ملک کےآئین کی سلامتی، جمہوری اقدار کی بقا ، قانونی نظام کی بالا دستی اور اپنے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ، قومی یکجہتی، سماجی انصاف،مذہبی رواداری اوربقائے باہم کے اصول کے احیاء کا دار ومدار آپ کے اسی حق رائے دہی کے استعمال میں مضمر ہے۔چنانچہ حق رائے دہی ملک کے کسی امن پسند اور جمہور حامی شہری کا محض آئینی حق ہی نہیں بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے۔
انتخابات میں ووٹ کے استعمال کو عموماََخالص دنیاوی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔حالانکہ ووٹ امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال دینی فریضہ ۔ اس دینی امانت اور اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں سُستی اور کاہلی کا برتاؤ نہ تو ملک کے حق میں ہے اور نہ ملّت کے حق میں۔ ووٹ کا استعمال اسلامی تقاضے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے مد نظر کرنا بھی وطن عزیز کے لئے سودمند نہیں ہو سکتا ہے۔جس تیزی کے ساتھ ملک پر فسطائی قوتوں کا غلبہ ہو رہا ہے اور مذہبی منافرت میں اضافہ ہو رہا ہے ، اگر اسے نہیں روکا گیا تو ملک سے بد امنی ، غربت و افلاس ، بے روزگاری، سماجی و معاشی عدم مساوات کا خاتمہ نا ممکن ہوگا۔ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کو صاف شفاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے لیکن، الیکشن کمیشن سے کہیں زیادہ ذمہ داری ووٹروں کی ہے کہ وہ صاف ستھرے اور ایماندار  امیدواروں کی شناخت اور ان کے انتخاب میں کوئی بھی کور کسر نہیں چھوڑ یںاور اس کے لئے اپنے  ایک ایک ووٹ کو دینی امانت اور اسلامی ذمہ داری کے طور پر استعمال کریں۔ انتخابات کے دنوں میں اکثر و بیشتر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ عام لوگ اپنے ووٹ کی قدرو قیمت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ووٹوں کا فیصد 50۔45 سے اوپر نہیں بڑھ پاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غلط اور سیاسی مافیا قسم کے لوگ منظم ڈھنگ سے اپنے سانٹھ گانٹھ کے امیدواروں کو جیت دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔یہ وہی جیتے ہوئے نمائندہ ہوتے ہیںجوغربت، بے روزگاری اور افلاس زدہ عوام کو اپنے دلالوں کے ذریعہ پیسے ویسے کا لالچ دیکر ان کے ووٹوں کو لوٹ لیتے ہیں۔اس طرح انتخابات کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی جیتے ہوئے لوگ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں پہنچ کر ملک کو لوٹنے کے کام میں لگ جاتے ہیں۔
  ایک حدیث میں ارشاد ہے: ’’جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوںکے سپرد کر دی گئی ہے، جو اس کے اہل نہیں ہیں تو  قیامت کا انتظار کرو۔ ‘‘چنانچہ ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ استعمال کرے کہ آیا میرا ووٹ ایسے شخص کے حق میںتو نہیں جا رہا، جس کا قومی مفاد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔آج ملک میں جس طرح کا ماحول پسرا ہوا ہے ، اس کے بہت سارے عوامل  ہیں ، مگر ان میں ووٹوں کے تئیں اپنی سرد مہری، لا پروائی اور عدم بیداری کا بھی کم رول نہیں ہے۔ووٹ استعمال کرنے کا مقصد ایسے باکردار لوگوں کو منتخب کرنا ہوتا ہے جو ملک کے خیر خواہ ہوں ، ملکی مفاد، ملک کی بقاء اور استحکام کا درد رکھنے والے ہوں ۔ جو امن اور صلح پسند ہوں، حق کے حامی ہوں، مظلوموں کے محافظ ہوں، غریبوں کے مسیحا ہوں، سماجی انصاف اور بھائی چارہ کے طرفدار ہوں۔یعنی ان میں انسانیت کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہو۔اگر ایسا کوئی امیدوار نہیں ملے تو پھر اس کا انتخاب ہونا چاہئے جو موجودہ امیدواروں میں سے قدرے بہتر ہو۔       جس حلقے میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابل ترجیح ہے تو اس کو چھوڑ کر  کسی بھی وجہ کسی دوسرے کو ووٹ دینا قطعی درست نہیں ہے۔
  آج انتخابات کےدوسرے مرحلے میں بہار کی پانچ سیٹوں کے لئے ووٹنگ ہو نے والی ہے یا ہو رہی ہے۔ ان میں کشن گنج، کٹہیار اور پورنیہ میں اردو داں ووٹروں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ مگر انتخابات کے پہلے مرحلے میں اکثر یہ دیکھا گیا کہ اس طرح کے حلقوں ؍علاقوں میں ووٹوں کا فیصد معقول نہیں رہا۔ یہ بھی اچھی بات نہیں ہے۔ابھی جوامیدوار میدان میں ہیں ان  سے ان حلقوں کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ ان میں سے اچھے اور اہل امیدوروں کا انتخاب اجتماعی سوجھ بوجھ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ آپ کی طرف سے معمولی سی  غفلت کمیونٹی کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اپنے گھر کے ساتھ ساتھ پاس پڑوس کے تمام ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک اپنے ساتھ لے جائیں اور ان کو اپنی اپنی پسند کے ووٹروں کے حق میں پہلی فرصت میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیں۔  ایسا نہ ہونے دیں کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ ووٹ دیتے وقت بھی یہ بات ذہن میں رہنی چاہئےکہ  جس امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالا جا رہا ہے اس کے حق میں یہ گواہی دی جا رہی ہے کہ یہ امیدوار میرے علم کے مطابق سب سے زیادہ مستحق اور دیانت دار ہے۔یاد رہے ،  آپ کا ووٹ انمول ہے ۔اس کا غلط استعمال امانت میں خیانت اور دینی فریضہ کی خلاف  ورزی ہے۔