فرانس میں خود کشی کا حق دینے کے قانون پر بحث شروع

تاثیر،۲۸       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پیرس،28مئی:فرانس جدید دنیا میں انقلاب کے بانی ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مگر اپنے خنجر سے خود کشی کی باضابطہ اجازت دینے کے بل کو قانون کی شکل دینے والے مغربی ملکوں میں تہذیب حاضر میں ایک پیروکار کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ بہر حال پیر کے روز سے اس کی پارلیمنٹ نے بھی اپنی مرضی سے خود کشی کا راستہ کھولنے پر بحث شروع کر دی ہے۔اس سے پہلے اس کے اڑوس پڑوس میں کئی یورپی ملکوں میں اپنے خنجر سے خود کشی کی اجازت کا راستہ کھل چکا ہے۔ گویا جو دنیا اپنی مرضی سے جینے کی داعی رہی ہے اب اسی کو اپنی مرضی سے مرنے کی آرزو کا سامنا ہے۔
فرانس کی پارلیمنٹ میں یہ بل ایک روز قبل سے باقاعدہ بحث کے لیے سامنے آیا ہے۔ فرانس کے صدر عمانوئل میکروں اس بل کے حامی ہیں۔ بلکہ اس خود کشی بل کو جمہوری اور پارلیمانی اصطلاح میں اصلاحات کا ہی نام دے رہے ہیں۔ انہیں یقین لگ رہا ہے کہ خود کشی کی صورت میں موت کے حامیوں کے لیے ان کی یہ کاوش بہت متاثر کن رہے گی اور میکروں کو خود کشیوں کی اجازت بانٹنے کے بدلے میں دوسری بار کے لیے صدر منتخب کر لیا جائے گا۔اس بل پر بحث مکمل ہونے اور اس بل کے منظور ہونے کے بعد قانون بن جانے کی صورت میں ایک بڑی کامیابی مل جائے گی۔ اس طرح فرانس بھی سپین اور پرتگال کی صف میں شامل ہو سکے گا۔ جن کے ہاں خود کشی کے لیے کوشاں لوگوں کو معاونت اور مدد دینے کا قانون بن چکا ہے۔اس بل پر بحث میں دو ایسے ارکان اسمبلی بھی حصہ لے رہے ہیں جن میں ایک کے بھائی نے مایوس ہو کر اپنی زندگی کا خود خاتمہ کر لیا تھا۔ یہ رکن اسمبلی آج تک اس پر دل گرفتہ ہے۔ دوسرے رکن اسمبلی کی ماں نے اس کے سامنے خود کشی کی تھی۔ مگر اس ‘ شہزادے ‘ نے ماں کو روکا نہیں تھا ، بلکہ اس کا کہنا تھا میں کون ہوتا ہوں کسی کو روکنے والا۔ گویا ‘اس کی جان اس کی مرضی۔ فرانس کی وزیر صحت کیتھرین واؤٹریہن نے اسمبلی میں بل پر بحث شروع کرتے ہوئے کہا ‘ حکومت فرانس چاہتی ہے کہ جو لوگ اپنی زندگیوں کے اختتام پر مشکلات میں گھرے ہوں انہیں اخلاقی بنیادوں پر ریسپانس دیا جائے۔انہوں نے کہا یہ پارلیمنٹ کے لیے خوش آئند بات ہے کہ اس اس پریشان کر دینے والے ایک انتہائی سنجیدہ ایشو کو بحث کے لیے پیش کر رہی ہے جو بعض اوقات معاشرے کے لیے اذیت کا سبب بن جاتا ہے۔ صدر میکروں کا اصرار ہے یہ بل ان افراد کو موت کے انتخاب کا حق دے گا جن کی بیماریاں لا علاج ہیں اور جنہیں کسی ایسی درد سے گذرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔’