’ آپ خود پر بھروسہ کرنا سیکھیں‘

تاثیر۱۵  جولائی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پٹنہ حج بھون کے نزدیک واقع مولانا مظہر الحق آدیٹوریم میںگزشتہ 14 جولائی کو’’بہار کا سیاسی منظر نامہ اور مسلمان‘‘کے عنوان سے ایک بیداری کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔اس کانفرنس کا انعقاد انتخابی حکمت عملی مرتب کرنے کی مہارت میں مشہور پر شانت کشور کی’’ جن سوراج مہم‘‘ سے جڑے، اے ایم یو اور جامعہ کے مسلم نوجوانوں نے کی تھی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصدعنقریب رجسٹرڈ ہونے والی سیاسی جماعت’’ جن سوراج پارٹی‘‘ سے بہار کے عوام با لخصوص سیاسی شعور رکھنے والے مسلمانوں کو جوڑ نے کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ کانفرنس کے مہمانان ذی وقار کی حیثیت سے سابق لوک سبھا ممبر اور حکومت بہار میں سابق کابینہ وزیر مناظر حسن صاحب اور سارن ٹیچرس انتخابی حلقہ موجودہ ایم ایل سی اشفاق صاحب موجود تھے۔ بحیثیت مہمان خصوصی مجوزہ ’’ جن سوراج پارٹی ‘‘کے سربراہ جناب پرشانت کشور اس کانفرنس میں موجود تھے۔ تقریباََ دو گھنٹے تک چلی کانفرنس ،موضوع کے اعتبار سے بہار کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کے ارد گرد گھومتی رہی۔

اپنے خطاب میں پرشانت کشور نے کھل کر اپنی باتیں رکھیں۔خود میں قائدانہ صلاحیت نہیں پیدا کرکے دوسرے سیاسی رہنماؤں کے پیچھے گھومتے رہنے کی عادت سے مجبور مسلم نمائندوں کو کھری کھوٹی سناتے ہوئے کہا کہ پارلیامنٹ یا اسمبلی میں مسلمانوں کے گھٹتےہوئے تناسب کو لیکر اگر آپ کی یہ شکایت سیاسی جماعتوں سے ہے کہ وہ ہمارے حق کے مطابق ٹکٹ نہیں دیتے ہیں، تو پھر آپ ہی بتائیں کہ بلدیاتی حلقوں یا پنچایتی راج حلقوں میں آپ کی نمائندگی آپ کے حق کے مطابق کیوں نہیں ہو پاتی ہے ؟ انھوں نے بتایا کہ سیاست کے میدان میں مسلمانوں کی پس ماندگی کی بنیادی و جہ ٹکٹ کا ملنا نہیں بلکہ سیاسی شعور کا بالیدہ نہیں ہونا ہے۔ اور جب سیاسی شعور بالیدہ نہیں ہوگا تو ظالم حکمراں تو آپ پر مسلط کئے ہی جاتے رہیں گے۔ پرشانت کشور نے پڑھنے لکھنے کے حوالے سے قرآن کریم کا پہلا سبق’’ اقراء‘‘  اور حصول علم کے لئے’’ چین تک کا سفر کرنے‘‘ کے حوالے سے حدیث نبوی کی یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے اس کو بھی کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ پرشانت نے سوال اٹھایا کہ اگر آپ اپنی ہی حالت بدلنے کے لئے فکر مند نہیں ہیں تو بھلا کون آپ کی سوچ کو اور آپ کی حالت کو بدل سکتا ہے ؟

پرشانت کشور کا کہنا تھا 2014 میں آپ کو ایک بڑا موقع ملا تھا، لیکن تب آپ نتیش کو چھوڑ کر لالو پرساد یادو کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔یہی وجہ تھی کے بعد میں نتیش کمار نے بھی آپ کو دھوکا دیا اور وہ بی جے پی میں چلے گئے۔نہیں تو یہ وہی نتیش کمار ہیں، جنھوں نے 2010 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی کے کھانے کی دعوت کو رد کر دیا تھا۔حالانکہ نتیش کمار کئی بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ دعوت کو انھوں نے نہیں بلکہ بی جے پی کے ہی ایک لیڈر کے کہنے سے رد ہوا تھا۔ خیر پرشانت کشور کا یہی کہنا تھا کہ مسلمانوں نے نتیش کمار کے ساتھ وفا نہیں کی اسی لئے نتیش کماربی جے پی میں چلے گئے۔ پرشانت کشور کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2005 سے لیکر 2014 تک نتیش کمار بہار کے مسلمانوں کو لیکر چلتے رہے۔جب نتیش کمار کو محسوس ہوا کہ مسلمان ان کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں تو نتیش کمار بھی اپنے ڈھنگ سے سوچنے اور کرنے لگے۔پرشانت کشور کے مطابق 2024 میں بھی نتیش کمار کے پاس ایسا موقع تھا کہ وہ لوک سبھا کے انتخابات کے بعد ، یعنی آپ کا ووٹ لیکر بی جے پی میں جا سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور الیکشن کے بعد جانا پسند کیا۔پرشانت کشور کا کہنا تھا کہ نتیش کمار نے کبھی مسلمانوں کا برا نہیں کیا، اس کے باجود مسلمان ان سے دور دور رہے ۔ اگر آپ کا یہی رویہ رہا تو پھر کون آپ پر بھروسہ کرے گا ؟ شاید یہی وجہ ہے ضلع مغربی چمپارن کے مجھولیا بلا ک اور ضلع سیتا مڑھی کے بیر گنیا بلاک جیسے بہار کے سیکڑوں کثیر آباد مسلم علاقے ترقی کے معاملے میں آج بھی سب سے پچھڑے ہوئے ہیں۔بر سبیل تذکر ہ پرشانت کشور نے لالو پرساد یادو کے دورِ اقتدار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے مسلمانوں سمیت تما م پچھڑے سماج کو بولنے کی طاقت ضرور دی ، لیکن پچھڑے سماج کی تعلیم کا کوئی خاص انتظام نہیں کیا۔چنانچہ ان کے دور میں بہار تعلیم اور ترقی کے راستے میں بہت پیچھے چھوٹ گیا۔

انتخابی حکمت عملی کے حوالے سے پرشانت کشورنے کہا کہ آپ سیاست میں ، اویسی صاحب کے طریقہ کار سے، شاید کبھی آپ اپنی شناخت قائم نہیں کر سکتے ہیں۔اگر آپ سیاست میں سربلند ہونا چاہتے ہیں تو ویسے لوگوں کے ساتھ چلنا ہوگا جو نظریاتی طور پر مہاتما گاندھی اور بھیم راؤ امبیکر جیسے رہنماؤں کے قریب ہیں اور اسی بنیاد پر وہ بی جے پی کو ووٹ بھی نہیں دیتے ہیں۔بی جے پی جہاں سے بھی چناؤ جیتتی ہے ، اس کا حاصل ووٹ تناسب عموماَ 36 فیصد ہوتا ہے۔ چنانچہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دینے والوں کی پہچان کرنی ہوگی اور انھیں ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ میری چناوی حکمت عملی اسی فارمولے پر مبنی ہے۔پرشانت کشورنے بار بار مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کی کہ آپ دوسروں کے سامنے اپنے حقوق کی گنتی مت گنائیے ۔ آپ خود اپنے آپ میں وہ سیاسی طاقت اور حوصلہ پیدا کیجئے ، جسے دوسرے بھی محسوس کریں ۔ سیاسی طور پر کمزور ہونے سے زیادہ افسوسناک ہے سیا سی طور پرکسی قوم کا بے معنیٰ ہو جانا۔اور بہار کے مسلمان ایک عرصہ سے اسی غیر معنویت کے شکار ہیں۔ آپ مدرسہ اور یتیم خانہ کھولتے ہیں ، لیکن بچوں کو سیاست کا سبق پڑھانا آپ کی ترجیحات میں نہیں ہے۔اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے یہ ضروری ہے زیادہ سے زیادہ تعداد میں پڑھے لکھے مسلم نوجوان سیاست میںآئیں۔’’ جن سوراج پارٹی ‘‘ ا ن میں قائدانہ صلاحیت فروغ دے گی اور اگر ضرورت پڑی تو انھیں پیسے سے بھی مدد کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کے حالات بدل دینے کی گارنٹی نہیں دے سکتا ہوں۔ میں آپ کو اتنا وعدہ کر سکتا ہوں کہ الیکشن کے وقت میں آپ کے آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ دوں اور یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ جہاں سے اپ بحیثیت ایم ایل اے ہیں ،وہاں میں اپنا امیدوار نہیں کھڑاکروں گا ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ مجھے بی جے پی کی بی ٹیم کہتے ہیں اور یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں جبکہ وہ آر جے ڈی جیسی پارٹی سے نہیں پوچھتے ہیں کہ چناؤ لڑنے کے لیے ان کے پاس پیسے کہاں سے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ2014 میں میں نےبی جے پی کوحکومت کی دہلیز تک پہنچانے کی کوشش میں نے بھی کی تھی۔ اوراس کے بعد کے چناؤ میں کئی ریاستوں میں بی جے پی کو ہرانے کا کام بھی میں نے ہی کیا تھا۔ ٓاج کی تاریخ میں چھ ریاستوں میں میری بنائی ہوئی حکومت ہے۔ایسے میں بھلا مجھے پیسے کی کمی کیوں ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ آج کے اس پروگرام میں اپنے حق اور حقوق کی قیمت پر ہم سے جڑنے کی بات کرتے ہیں، انھیں مجھ سے جڑنے یا میری پارٹی کو ووٹ دینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں میں اتنا ضرور یقین دہانی کرنا چاہتا ہوں کہ اگلے چناؤ میں آ پ کو آپ کی آبادی کے تناسب سے ٹکٹ دے کر چناؤ ضرور جتواؤںگا۔بس شرط یہ ہے کہ آپ اپنی طاقت کو پہچانیں اور صرف خود پر بھروسہ کرنا سیکھیں۔