تاثیر ۱۹ ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
’’ ون نیشن، ون الیکشن‘‘ کے حوالے سے ملک میں ایک بار پھر بحث تیز ہو گئی ہے۔ مرکز کی مودی حکومت نے رام ناتھ کووند کی سربراہی والی کمیٹی کی تمام تجاویز کو منظوری دے دی ہے، اس لیے اب’’ ون نیشن ،ون الیکشن ‘‘سے متعلق بل لانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ لیکن یہ بات سننے میں جتنی آسان لگتی ہے، اس پر عمل اتنا آسان نہیںہے۔یہ ایسا طویل اور پیچیدہ سفر ہے۔ اس سفر میں کامیابی ک ساتھ منزل تک پہنچنے کے لئے ڈھیر سارے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔سب سے پہلے حکومت کو اپنا بل دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے پاس کرانا ہوگا۔ اس کے علاوہ چونکہ تمام ریاستیں اس میں حصہ لینے والی ہیں، اس لئے کم سے کم 15 ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں کی منظوری بھی درکار ہوگی ۔ماہرین کا خیال ہے کہ بل دونوں ایوانوں میں منظور ہونے کے بعد بھی آئین میں ترمیم کا کام باقی رہے گا۔ مجموعی طور پر 18 ترامیم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ تب ہی ایک فریم ورک تیار ہو گا اور ’’ون نیشن،ون الیکشن‘‘ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا۔
آج بھلے ہی ’’ون نیشن، ون الیکشن‘‘ کا مفروضہ ہمیں کچھ نیا نیا سا لگ رہا ہو ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد مرکز اور ریاستوں کے انتخابات ایک ساتھ ہی ہوئے تھے۔ 1952 میں جب ملک میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے، تب ریاستی انتخابات بھی ایک ساتھ کرائے گئے تھے۔ اس کے بعد 1957، 1962 اور 1967 میں ایک ساتھ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے انتخابات ہوئے۔ 1967 میں اتر پردیش میں چودھری چرن سنگھ کی بغاوت کی وجہ سے سی پی گپتا کی حکومت گر گئی تھی۔ اس کے بعد 1968 اور 1969 میں کچھ ریاستوں کی حکومتیں وقت سے پہلے تحلیل ہو گئیں۔ 1971 کی جنگ کے بعد لوک سبھا کے انتخابات بھی مقررہ وقت سے پہلے کرائے گئے۔ اور پھر دھیرے دھیرے پورے ملک میں بیک وقت انتخابات کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔
قابل ذکر ہے کہ ’’ون نیشن، ون الیکشنــ ‘‘ کی تجویز سے متعلق کووند کمیٹی کی رپورٹ پر بدھ کو مرکزی کابینہ کی مہر لگ جانے کے بعد ایک بار پھر یہ مفروضہ موضوع بحث بن گیا ہے۔ مانا جا رہا ہے حکومت پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں اس سے متعلق بل لا سکتی ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ سابق صد جمہوریہ رام ناتھ کووند کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ2018 میں پہلی بار پی ایم نریندر مودی نے’’ون نیشن، ون الیکشنــ ‘‘ کا مدعا سامنے رکھا تھا۔ حکومت اس سلسلے میں کیوں آگے بڑھ رہی ہے، اس پر کئی طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر’’ون نیشن، ون الیکشنــ ‘‘ کی ضرورت کیوں ہے؟
یہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ مرکزی حکومت ’’ون نیشن، ون الیکشنــ ‘‘ کے سلسلے میں طویل عرصے سے کوششیں کر رہی ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ضلع میں عام طور پر چار مرتبہ یعنی لوک سبھا انتخابات، اسمبلی انتخابات، میونسپل اور پنچایتی انتخابات کے وقت ضابطہ اخلاق نافذ ہوتا ہے۔ جب کوئی ضابطہ اخلاق نافذ ہوتا ہے تو اس کا براہ راست اثر ترقیاتی منصوبوں پر پڑتا ہے۔ ملک میں مسلسل انتخابی صورتحال کے باعث حکومت کو پالیسی اور انتظامی فیصلے لینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اُن دنوں کئی اہم کام اس سے متاثر رہتے ہیں۔حکومت اگر’’ون نیشن، ون الیکشنــ ‘‘ کی پہل سے اس گیپ کو بھرنا چاہتی ہے تو یقیناََ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ ویسے اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو اس سمت میں آگے بڑھنا ہے تو پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کا بل لانا ہوگا۔ اس کی منظوری کے بعد ہی اس سمت میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔ویسے یہ معاملہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا ہے۔ لاء کمیشن نے 1999، 2015 اور 2018 میں تین بار اس پر اپنی رپورٹ دی تھی۔ 2016 میں پارلیمانی کمیٹی نے بھی اس پر اپنی عبوری رپورٹ پیش کی تھی۔ جب یہ معاملہ 2018 میں سامنے آیا تو مرکز نے اس پورے معاملے کو لاء کمیشن کے حوالے کر دیا تھا۔ لا کمیشن نے اس پر مکمل روڈ میپ تیار کیا ہے۔ 2018 میں لا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا ،’’ صورتحال ایسی ہے کہ ملک میں اسمبلی اور لوک سبھا کے لیے بیک وقت انتخابات کرانے کی ضرورت ہے۔‘‘ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ موجودہ ضابطے کے مطابق بیک وقت انتخابات ممکن نہیں ہیں۔اس کے لئے آئین میں کچھ ترامیم کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت کو اس پر عمل درآمد کرنا ہے تو آئین میں کم از کم 5 ترامیم کرنا ہوں گی۔
کچھ لوگوں کے ذہن میں ابھی یہ سوال چل رہا ہے کہ کیا ملک میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ممکن ہیں؟ جواب’ ہاں‘ میں ضرور ہو سکتا ہے۔کیوں کہ ایسا پہلے کئی بار ہو چکا ہے۔ حالانکہ پہلے کی طرح اب اگر 2029 میں لوک سبھا انتخابات کے ساتھ پورے ملک کے اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو کئی ریاستوں کی حکومتوں کو قبل از وقت برخاست کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب ملک کے موجودہ سیاسی نظام کے حوالے سے بھی حکومت کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مرکز میں جہاں دو بڑی قومی جماعتوں یعنی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہے، وہیں بیشتر ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کا غلبہ ہے۔ کئی بار ریاستوں میں معلق اسمبلی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ایسی صورتحال میں مخلوط حکومت بنتی ہے۔ا یسے حالات میں اگر حکومت گرتی ہے تو ظاہر ہے’’ون نیشن، ون الیکشن‘‘ کے مفروضے کا شیرازہ بکھر جائے گا۔اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے لئے بھی ’’ ون نیشن، ون الیکشن‘‘ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا کوئی معمولی چیلنجنگ نہیںہے۔ ملک میں لوک سبھا کی 543 اورتمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 4126 سیٹیں ہیں۔ان سب پر ایک ساتھ انتخابات آسان نہیں ہے۔مگر حکومت بہر حال حکومت ہے۔ اگر وہ ٹھان لے تو پھر کیا نہیں ہو سکتا ہے۔بھارت کے لوگ تو یہ چاہتے ہی ہیں کہ ملک کی ترقی کی راہ میں حائل تمامتر سیاسی و انتظامی رکاوٹیں دور ہوں۔ ہر طرف امن و امان قائم ہو، تاکہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘‘ جیسا، حکمرانی کا بہترین تصوّر انتہائی خوبصوتی کے ساتھ زمین پر اتر سکے۔
******