تاثیر ۲ ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
چند ماہ کے بعد بہار میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ان دنوںبہار کی سیاست میں سرگرم تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا گھر سنبھالنے میں مصروف ہیں۔اس کے باوجود ایک خیمہ سے نکل کر دوسرے خیمے میں جانے کے علاوہ سیاسی لیڈروں کو اپنے سیاسی مفاد کےتحفظ کے لئے دائیں بائیں تاکنے ، جھانکنے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ اسی ماحول میں ، 2025 کے اسمبلی انتخابات کے لئے پچھلے دو برسوں سے اپنی سیاسی زمین کو ہموار کرنے کے کام میں شب و روز لگے، جن سوراج کے لیڈر پرشانت کشور نے یہ کہہ کر بہار کی سیاست میں ایک ہلچل سی مچا دی ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد ریاست کا وزیر اعلیٰ جن سوراج پارٹی کا ہوگا۔ پرشانت کشور کو پورا یقین ہے کہ 2025 کے بہار اسمبلی انتخابات جن سوراج بہ مقابلہ این ڈی اے ہوگا۔ یہ مقابلہ60فیصد اور40فیصد والے ووٹوں کے درمیان ہوگا۔ 40 فیصد میں ویسے لوگوں کے ووٹ ہونگے، جو ’’ہندتووادی‘‘اور گوڈسے کے نظریہ پر عمل کرنے والے ہیں۔جبکہ 60 فیصد میں 18 فیصد مسلمانوں کے ساتھ گاندھی کے نظریہ کی حمایت کرنے والے وہ ہندو ہوںگے ، جن کے پاؤں کو ’’ہندتوواد‘‘ کا طوفان بھی متزلزل نہیں کر پاتا ہے۔پرشانت کشور یہ مانتے ہیں کہ ملک یا ریاست کے تمام ہندو بھائی، جو گاندھی، امبیدکر اور لوہیا جیسے سماجوادی لیڈروں کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیںوہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے ہیں اور نہ کبھی دیں گے۔اگر مسلمانوں اور بی جے پی کو ووٹ نہیں دینے والے ہندوؤں کے ووٹ ایک جگہ آجائیں تبھی آر ایس ایس اور بی جے پی کو شکست دی جا سکتی ہے۔بصور دیگر کسی بھی دوسرے سیاسی تانے بانے سے فاشسٹ طاقتوں کو نہیں ہرایا جا سکتا ہے۔
انتخابی حکمت عملی تیار کرنے کے معاملے میں مشہور پرشانت کشور پٹنہ کے باپوسبھاگار میںگزشتہ اتوار کو’’سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری‘‘ کے عنوان سے منعقد ایک پروگرام میں، جن سوراج کی چناوی حکمت عملی ساجھا کر رہے تھے۔ پرشانت کشور کا دو ٹوک انداز میں یہی کہنا تھا کہ سیاست کے معاملے میں مسلمان انتہائی سرد مہری کے شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے انھیں لاشعوری طور پر اپنا غلام بنا لیا ہے۔سیاست میں انھیں صرف پارٹی کا جھنڈا ڈھونے لائق سمجھ لیا گیا ہے۔ پرشانت مسلمانوں سے کہتے ہیں، ’’ بہار میں آپ کی آبادی کے حساب سے 40 مسلم ایم ایل ایز ہونے چاہئیں۔آپ کے پاس آبادی کے حساب سے 1650 سرپنچ اور مکھیا ہونے چاہئیں، آبادی کے حساب سے 27500 وارڈ ممبر ہونے چاہئیں، لیکن آج صرف 11 ہزار سے کم وارڈ ممبر ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کے لئے کسی سیاسی جماعت سے ٹکٹ لینے کی جب ضرورت نہیں ہے تو پھر یہ تناسب اتنا کیوں گھٹا ہوا ہے ؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج مسلم معاشرے میں سیاسی بیداری ختم ہو چکی ہے۔جس کا نقصان یہ ہوا کہ آپ کے بچوں کا مستقبل جلتا رہا ہے اور اس سے ابتک دوسروں کے گھروں میں روشنی ہوتی رہی ہے۔انہوں نے صرف آپ کے ووٹ لیے ہیں، لیکن آپ کی ترقی کی کبھی پرواہ نہیں کی اور آپ کو آپ کی آبادی کے مطابق سیاسی حصہ نہیں دیا۔ آر جے ڈی نے تحفظ فراہم کرنے کے نام پر مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے جھنڈے کے پیچھے رکھا۔ انہوں نے ڈرا کر مسلمانوں کے ووٹ چھین لیے۔ مسلمان لالٹین کی مٹی کا تیل بن کر دوسروں کے گھروں کو روشن کرتے رہے۔ـ‘‘
پرشانت کشور سیدھا الزام لگاتے ہیں کہ آر جے ڈی نے مسلمانوں کو بی جے پی سے خوفزدہ کرکے انھیں سیا سی بندھوا مزدور بنادیا ہے۔ پرشانت نے دو ٹوک لفظوں میں کہا ،’’ آپ نے غلط لیڈر کا انتخاب کیا۔ اسی لیے آج آپ کی یہ حالت ہے۔‘‘پرشانت نے مسلمانوں کو دعوت دی کے سرد مہری کے خول سے باہر نکلئے۔ سرگرم سیاست میں حصہ لیجئے ۔ اگر آپ کے گھر میں نوجوان لڑکے ہیں ،تو انھیں ہمیں دیجئے۔ ہم انھیں سیاست بھی سکھائیں گے، چناؤ لڑنے کا طریقہ بھی بتائیں گے اور اگر ان کے اندر صلاحیت ہو گی تو ہم انھیں اپنے خرچ پر چناؤ بھی لڑائیں گے اور جتائیں گے بھی۔
قابل ذکر ہے کہ پرشانت کشور عوامی گفتگو کے درمیان اپنی پارٹی کی حکومت بنانے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے اور لوگوں سے ملنے کے بعد اِن دنوں ان کی خود اعتمادی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ پرشانت کشور 2 اکتوبر گاندھی جینتی کو اپنی پارٹی کا باضابطہ اعلان کرنے والے ہیں۔ کئی سابق ایم ایل ایز، ریٹائرڈ آئی اے ایس و آئی پی ایس اورجسٹس وغیرہ ا ن کے ساتھ سیاست کے میدان میں آ چکے ہیں۔ ان کا خاندان آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر مضبوط ہو تا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اب بہار کے سیاسی گلیاروں میں سیاسی مسائل پر کوئی بھی بحث پرشانت کشور کے بغیر ادھوری محسوس ہونے لگی ہے۔ پرشانت کشور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی حیثیت کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔وہ آر جے ڈی کے سلسلے میں کہتے ہیں، اسے جو کچھ کرنا ہے، وہ کرے۔ ہماری لڑائی آر جے ڈی سے نہیں این ڈی اے سے ہے۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو این ڈی اے 176 سیٹوں پر آگے ہے۔ ایسے میں آر جے ڈی کو کون پوچھتا ہے۔ جن سوراج کے سربراہ پرشانت کشور کا دعویٰ ہے کہ جن سوراج نے سماج کے تمام طبقات سے ان کی آبادی کے مطابق شرکت کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے تحت مسلمانوں کی آبادی کے حساب سے پہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے کہ کم از کم 40 اسمبلی سیٹوں پر مسلم سماج کے قابل لوگ الیکشن لڑیں گے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں آر جے ڈی کے لوگوں کو چیلنج کرتا ہوں، جو پچھلے 30 سالوں سے مسلمانوں کے لیڈر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔وہ پہلے مسلمانوں کے حقوق کی پامالی بند کریں اور اگر ہمت ہے تو آبادی کے حساب سے ٹکٹ دے کر دکھائیں۔پرشانت کے اس چیلنج میں کتنا دم ہے اور آر جے ڈی اس کا سامنا کیسے کر تا ہے،یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔سیاسی مبصرین دزدیدہ نظروں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔