تاثیر ۲۴ ستمبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
آندھر اپردیش کے ضلع چتور کے تروپتی میں واقع مشہور زمانہ وینکٹیشور مندر سے متعلق لڈو تنازع کو جلد سے جلد رفع دفع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔بیشتر لوگ اس مندر کو تروملا تروپتی مندر کے نام سے ہی جانتے ہیں۔ پچھلے دنوں جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ اس مندر کے عقیدتمندوں کے درمیان پرساد کے طور پر جو لڈّو تقسیم کئے جاتے رہے ہیں ، وہ خالص گھی کے نہیں ہوتے ۔ایک ہفتہ قبل ریاست کے وزیرِاعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ تروپتی مندر میں پوجا کے لیے آنے والے لوگوں کو پرساد کے طور پر دیے جانے والے لڈو گائے اور خنزیر کی چربی کے علاوہ مچھلی کے تیل والے گھی میں بنائے جاتے ہیں۔چندرا بابو نائیڈو کے اس بیان سے اچھا خاصا تنازع کھڑا ہو گیا ۔ تروپتی مندر کا شمار بھارت کے اعلیٰ ترین مندروں میں ہوتا ہے۔ ملک بھر سے لوگ یہاں آکر پوجا کرتے ہیں۔ تروپتی مندر میں تیار کیے جانے والے لڈ و کی سپلائی پورے بھارت کے مندروں میں ہوتی ہے۔
چار دن قبل ایودھیا کے ہائی پروفائل رام مندر کے مہا پجاری آچاریہ ستییندر داس نے بھی یہہ کہ کر ایک نیا قضیہ کھڑا کردیا ہے کہ رواں سال 22 جنوری کو رام مندر کی افتتاحی تقریب کے موقع پر آٹھ ہزار مندوبین کو ترپتی مندر سے منگوائے گئے لڈو پرساد کے طور پر دیے گئے تھے۔اس بیان نے لڈوؤں کے تنازع کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ تحقیقات کا مطالبہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ کٹر ہندو کوئی بھی ایسی چیز نہیں کھاتے جس میں کسی جانور کی چربی یا اُس کے اجزا ملائے گئے ہوں۔بھارت کے مندروں میں تبرک کے طور پر بانٹے جانے والے لڈو عام طور پر دیسی گھی سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ہندوؤں کے عقائد کے مطابق کسی بھی جانور کی چربی والی کوئی چیز کھانے سے دھرم ’بھرشٹ“ یعنی آلودہ ہو جاتا ہے۔ ویسےرام مندر کی انتظامی کمیٹی نے مہا پجاری کے بیان کے جواب میں کہا ہے کہ مندر کی افتتاحی تقریب میں تروپتی سے منگوائے گئے لڈو تقسیم نہیں کیے گئے تھے بلکہ تمام مہمانوں میں الائچی کے دانے بانٹے گئےتھے۔ مگر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کہہ کر عقیدتمندوں کوسمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اِدھر جیسے جیسے کچھ لوگ معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں ویسے ویسے لڈومیں ملاوٹ کا تنازع شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔معاملے کو رفع دفع کرنے کے لئے گزشتہ سوموار (23 ستمبر) کو تروپتی مندر کا شدھی کرن (تطہیر) کیا گیا۔مندر کے پجاریوں نے مندر کو شدھ کرنے کے لئے کچھ رسمیں ادا کیں اور پھر یہ اعلان کر دیا گیا کہ مندر ملاوٹ کی چربی والی آلودگی سے اب پوتر( پاک) ہو گیا ہے۔حالانکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق لڈو کی تیاری میں ملاوٹ شدہ گھی کے استعمال کے الزامات سامنے آنے کے بعد سے اس سلسلے میں چھڑا تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ابھی بھی یہ لڈو تنازعہ اس وقت بالعموم ملک اور بالخصوص تیلگو ریاستوں میں کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ جس دن سےاس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ تروپتی مندر کے پرساد میں استعمال ہونے والے لذیذ لڈو کی تیاری میں گھی کی بجائے جانوروں کی چربی کا استعمال کیا جا رہا ہے، اس دن سےہی آندھرا پردیش، تلنگانہ اور پورے ملک میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ دیکھا جا رہا ہے۔ہندوؤں کے نزدیک جس طرح تروملا تروپتی دیواستھانم ایک قابل احترام تیرتھ یاترا کا مقام ہے، اسی طرح وہ اس لڈو کو بھی انتہائی مقدس سمجھتے ہیں۔مگر گھی کی ملاوٹ کےانکشاف سے ’’تیرتھ استھل‘ ‘ اور وہاں کے ’’لڈو‘‘ دونوں کے وقار کو مجروح کیا ہے۔دریں اثنا، تروپتی مندر میں ’پرساد‘ کے طور پر پیش کیے جانے والے لڈو میں ’’جانوروں کی چربی‘‘ کی موجودگی کے الزامات پر بڑھتے ہوئے تنازعے کی وجہ سے مرکزی حکومت نے آندھرا پردیش حکومت سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ مرکزی وزیر خوراک پرہلاد جوشی نے بھی ان الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جس سے عقیدت مندوں میں تشویش پھیلی ہوئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ تنازع گزشتہ بدھ(18 ستمبر) کو اس وقت شروع ہوا جب آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے الزام لگایا کہ ان کے پیشرو جگن موہن ریڈی نے لڈو میں غیر معیاری اجزا اور جانوروں کی چربی کے استعمال کی اجازت دی تھی۔پارٹی نے تروپتی مندر میں لڈو کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے گھی میں گائے کی چربی، سور کی چربی اور مچھلی کے تیل کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا۔ایک دن بعد نائیڈو کی زیر قیادت تیلگو دیشم پارٹی نے ایک لیب رپورٹ جاری کی، جس میں مبینہ طور پر مشہور سری وینکٹیشورا سوامی مندر کا انتظام کرنے والے تروملا تروپتی دیواستھانم کی طرف سے بھیجے گئے گھی کے نمونوں میں جانوروں کی چربی کی موجودگی کی تصدیق کی گئی۔نائیڈو نے الزام لگایا کہ پچھلی حکومت نے سستے داموں میں کمتر معیار کا گھی خریدا، جس سے لڈو کی کوالٹی متاثر ہوئی ۔ تاہم موہن ریڈی نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات مسترد کر دئے ہیں ۔تمل ناڈو میں واقع اے آر ڈیری فوڈ پرائیویٹ لمیٹڈ (جس نے تروپتی لارڈ بالاجی مندر کو گھی سپلائی کیا تھا) نے کہا کہ حکام نے جانچ پڑتال کے بعد اس کی مصنوعات کے نمونوں کے معیار کی تصدیق کی ہے۔ کمپنی نے کہا صرف جون اور جولائی کے دوران اس نے تروملا مندر کو گھی سپلائی کیا تھا، اور یہ سپلائی لیب کی مستند رپورٹوں کے ساتھ کی گئی تھی۔تاہم دوسری طرف چار ٹیسٹ شدہ کوالٹی چیکس میں سے ایک نمونے میں ملاوٹ کا انکشاف ہونے کے بعد مرکزی وزارت صحت نے پیر کو گھی سپلائی کرنے والی کمپنی کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کر دیا ہے۔
گھی میں غیر معیاری اجزا اور جانوروں کی چربی کے الزامات سامنے آنے کے بعد مندر کے سابق چیئرمین نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک آزاد کمیٹی تشکیل دی جائے۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھی کمنٹس کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ غنیمت ہے اس معاملے میں کسی مسلمان کا نام نہیں آیا ہے۔ خدا نخواستہ اگرایسا ہو گیا ہوتا تو منافرت کی آگ کو بجھانا مشکل ہو جاتا۔
*******************