تصادم سے کنارہ ،مفاہمت کو ترجیح

تاثیر  14  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

  ایک طویل عرصے کے بعد جموں و کشمیرسے صدر راج ہٹا دیا گیا ہے۔صدر راج کے خاتمے کے ساتھ ہی مرکز کے زیر انتظام اس علاقے میں حکومت سازی کا راستہ ہموار ہو چکا ہے۔کل 16 اکتوبر کو بحیثیت وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کی حلف برداری ہونے والی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کرنے کے لئے گزشتہ جمعہ کو سری نگر واقع راج بھون پہنچے تھے۔ انھوں نے  لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے ملاقات کرکے انھیں 54 ایم ایل ایز کی حمایت سے متعلق خطوط پیش کئے تھے۔ دریں اثنا بھارتیہ جنتا پارٹی کی جموں و کشمیر یونٹ کے سربراہ رویندر رینا کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی جموں و کشمیر میں اہم اپوزیشن کے طور پر اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔
  در اصل جموں و کشمیر میں 10سال بعد ایک منتخب حکومت واپس آئی ہے۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد نے اسمبلی انتخابات میں 48 سیٹیں جیتی ہیں۔ 90 نشستوں والی اسمبلی میں اکثریتی تعداد 46 ہے۔ نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے اسمبلی انتخابات کے نتایج کے بعد ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ویسے تو عمر عبداللہ پہلے بھی جموں و کشمیر کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔ تب بھی ان کا کانگریس کے ساتھ ہی اتحاد تھا۔ تاہم اب صورتحال پہلے جیسی نہیں رہ گئی ہے۔ جب عمر عبداللہ جنوری، 2009 سے جنوری، 2015 تک وزیر اعلیٰ تھے، جموں و کشمیر ایک مکمل ریاست تھی، اس کا اپنا آئین تھا، اسے مرکزی حکومت کم اور ریاستی حکومت زیادہ چلاتی تھی۔ لیکن اب جب عمر عبداللہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بنیں گے، جموں و کشمیر مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ کے طور پر ان کے سامنے ہوگا۔ اب وہاں منتخب حکومت سے زیادہ مرکز کی مداخلت ہوگی۔ حکومت لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری اور اجازت کے بغیر زیادہ کام نہیں کر سکے گی۔
قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ، 2019 میں پارلیمنٹ میں منظور کیا گیا تھا۔ اس کے ذریعے ریاست کو دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا گیا اور دو الگ مرکز کے زیر انتظام علاقے بنائے گئے۔ جموں و کشمیر میں ایک اسمبلی ہے، جب کہ لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل 239 کہتا ہے کہ ہر یونین ٹیریٹری کا انتظام صدر کے پاس ہوگا۔ اس کے لئے صدر ہر یونین ٹیریٹری میں ایک ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کریں گے۔ انڈمان نکوبار، دہلی، پڈوچیری اور جموں و کشمیر میں لیفٹیننٹ گورنر ہیں۔ جبکہ دمن دیو اور دادرا نگر حویلی، لکشدیپ، چندی گڑھ اور لداخ میں منتظم ہیں۔جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ، 2019 یہ بھی کہتا ہے کہ پڈوچیری میں لاگو ہونے والا آئین کا آرٹیکل 239A جموں و کشمیر میں بھی لاگو ہوگا۔ دہلی واحد مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے، جس میں اسمبلی ہے، جہا ں 239 اے اے لاگو ہے۔ دہلی حکومت کو پولیس، لینڈ اور امن و امان کے علاوہ تمام معاملات میں قانون بنانے کا حق ہے۔واضح ہو کہ جب جموں و کشمیر 1947 میں بھارت میں شامل ہوا تو اسے دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں قانون بنانے کا حق حاصل تھا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے پہلے جموں و کشمیر اسمبلی کے پاس بہت سے اختیارات تھے، جب کہ وہاں کے معاملات کے لئے پارلیمنٹ کے اختیارات محدود تھے۔تاہم 2019 کے بعد جموں و کشمیر کا آئینی ڈھانچہ مکمل طور پر بدل گیا ہے اور اب لیفٹیننٹ گورنر کا ،حکومت سے بڑا کردار ہے۔ 2019 کا قانون کہتا ہے کہ پولیس اور لاء اینڈ آرڈر کے علاوہ جموں و کشمیر اسمبلی دیگر تمام معاملات پر قانون بنا سکتی ہے، لیکن ایک پیچ بھی ہے۔ اگر ریاستی حکومت ریاستی فہرست میں شامل کسی بھی موضوع پر قانون بناتی ہے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اس سے مرکزی قانون متاثر نہ ہو۔ اس کے علاوہ اس قانون میں یہ بھی شرط ہے کہ اسمبلی میں کوئی بل یا ترمیم اس وقت تک پیش نہیں کی جائے گی جب تک کہ گورنر اس کی منظوری نہ دیں۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اب ایک طرح سے جموں و کشمیر میں لیفٹیننٹ گورنر ہی سپریم پاور ہیں۔ حالانکہ حکومت کو پولیس اور امن و امان کے علاوہ دیگر معاملات میں قانون بنانے کا حق حاصل ہے، لیکن اس کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری ضروری ہوگی۔ یہی نہیں بلکہ لیفٹیننٹ گورنر کا بیوروکریسی اور اینٹی کرپشن بیورو پر بھی کنٹرول ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری افسران کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری سے ہی کی جا سکے گی۔مزید برآں، لیفٹیننٹ گورنر کے کسی بھی عمل کی قانونی حیثیت پر اس بنیاد پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ اسے ایسا کرتے وقت اپنی صوابدید کا استعمال کرنا چاہئے تھا یا انھوںنے صوابدید کا استعمال نہیں کیا۔ اس کے کسی بھی فیصلے کو عدالت میں اس بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے فیصلہ لیتے وقت وزراء کی کونسل کا مشورہ لیا یا نہیں۔ انتخابات سے قبل ہی لیفٹیننٹ گورنر کو ایڈووکیٹ جنرل اور لاء آفیسرز کی تقرری کا حق بھی مل گیا ہے۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پہلے جموں و کشمیر اسمبلی کی مدت کار 6 سال ہوتی تھی، لیکن اب حکومت کی میعاد صرف 5 سال ہوگی ۔ اس کے بعد پھر انتخابات ہوں گے۔
اِدھر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں و کشمیر کے اگلے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا حال ہی میں د ئے گئے ایک بیان کو سیاسی تناظر میںکافی دلچسپ مانا جا رہا ہے۔ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ انتخابات ہو چکے ہیں۔اب جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو جلدبحال کیا جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ جموں و کشمیر حکومت اور مرکز کے درمیان ہم آہنگی بے حد ضروری ہے۔ نئی دہلی کے ساتھ تصادم سے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عمر عبداللہ کے بیان کی نرمی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ تصادم کی سیاست سے کنارہ کش ہو کر مفاہمت کے راستے کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔