اسمبلی انتخابات میں فائدے کی امید

تاثیر  21  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

ہریانہ میں تیسری بار اقتدار میں واپس آنے کے بعد اپنی پہلی کابینہ میٹنگ میں بی جے پی حکومت نے اگست میں سپریم کورٹ کے ذریعہ دلت ذیلی کوٹہ کے حکم کو نافذ کر دیا ہے۔اور اس طرح ایسا کرنے  والا ہریانہ ملک کی پہلی ریاست بن گیا ہے۔17 اکتوبر کو نائب سنگھ سینی نے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا اور اس کے اگلے ہی دن انھوںنے کابینہ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لے لیا۔ کابینہ کے اس فیصلے کے بعد ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے کہا تھا کہ ہماری حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کا احترام کیا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ  اس  فیصلے کے بعد، درج فہرست ذاتوں کو ان کی پسماندگی کی بنیاد پر تقسیم کرکے ریزرویشن دینے کا انتظام ریاست میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ایسے میں یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ جب پی ایم نریندر مودی نے پارٹی کے دلت ممبران پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے تو پھر ہریانہ حکومت ایسا قدم کیوں اٹھا رہی ہے؟ کیا بی جے پی حکومت اس پر عمل کرکے آئندہ اسمبلی انتخابات میں فائدے کی توقع کر رہی ہے؟  کیا مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کے لئے یہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے؟
  مانا جا رہا ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ہریانہ میں کلین سویپ کا تعلق دلت ووٹوں کو تقسیم کرنے میں پارٹی کی کامیابی سے ہے۔ نایاب سنگھ سینی حکومت کے اس اقدام سے اسے 36 سے زیادہ پسماندہ ذاتوں پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جیسے کہ والمیکی، بازیگر، سانسی، ڈیہا، دھانک اور سپرا جیسی ایس سی ذیلی زمرہ جات وغیرہ جیسے  دلت گروپ ہریانہ میں ایس سی کے لیے کل 20فیصد ریزرویشن کے اندر ذیلی کوٹہ کا مطالبہ کر رہے تھے۔  بی جے پی نے کئی مقامی غیر جاٹ و دلت ذاتوں کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ انتخابات جیتتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نافذ کرے گی۔ قابل ذکر ہے کہ یکم اگست کو سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں ریزرویشن میں ایس سی کی ذیلی زمرہ بندی کی اجازت دی تاکہ دلتوں میں سب سے زیادہ پسماندہ جماعتیں کوٹہ کا فائدہ حاصل کر سکیں۔ ہریانہ میں، دلت۔ای مہاپنچایت نامی ایک تنظیم، جس کی قیادت جند کے دیوی داس والمیکی کر رہے ہیں، کئی سالوں سے ایس سی ریزرویشن کے اندر کوٹے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مارچ 2020 میں، دلت گروپوں کے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے، ہریانہ اسمبلی نے ریاست میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نشستوں کے لیے ایس سی کوٹہ کے اندر ایک کوٹہ بنانے کا بل منظور کیا تھا۔ ہریانہ حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے والمیکی نے کہا تھا کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جو کافی تاخیر کے بعد لیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بی جے پی حکومت کو بہت پہلے لینا چاہیے تھا کیونکہ پارٹی نے 2009 اور 2014 کے اسمبلی انتخابات سے قبل ایس سی کے اندر ذیلی زمرہ بندی کا وعدہ کیا تھا۔
واضح ہو کہ مہاراشٹر میں درج فہرست ذاتوں کے کوٹے کی تقسیم کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک طویل عرصے سے تحریک چل رہی ہے۔ اس وقت درج فہرست ذاتوں کو تعلیم اور ملازمتوں میں 13 فیصد ریزرویشن حاصل ہے۔ ہندو دلت تنظیمیں الزام لگا رہی ہیں کہ بدھ مت کے دلت، جو پہلے مہار برادری کے رکن تھے اور 1956 میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے ساتھ مل کر بدھ مت اختیار کر چکے تھے۔  ان میں سے زیادہ تر دلت کوٹہ کے فوائد انہوں نے حاصل کیے ہیں اور دوسرے گروہوں کو نقصان ہوا ہے۔ مہاراشٹر میں ایس سی زمرے کے تحت 59 ذاتیں درج ہیں، جن میں بدھسٹ دلتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر، درج فہرست ذاتیں ریاست کی آبادی کا تقریباً 13 فیصد ہیں۔دلت ذیلی کوٹہ کے مطالبے کو لے کر مہاراشٹر میں گزشتہ سال متعلقہ آبادی کی بے چینی سڑکوں پر اتر آئی تھی۔ پچھلے سال ہی 22 فروری کو ساتونگ برادری کی تنظیموں نے اس مطالبے کو لے کر ممبئی میں احتجاج کیا تھا۔ان کا مطالبہ رہا ہے کہ موجودہ 13 فیصد ایس سی کوٹہ کو چار ذیلی زمروں یعنی اے، بی، سی اور ڈی میں تقسیم کیا جائے ۔قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر میں درج فہرست ذاتوں کی کل تعداد 13.2 ملین ہے،جن میں سے بدھ دلتوں کی تعداد 65 لاکھ ہے۔ ستنگوں کی تعداد 40 لاکھ اور جتواؤں کی تعداد 15 لاکھ ہے۔ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ دلتوں کے فائدے کے لیے جاری کی جانے والی اسکیموں اور تحفظات میں بدھ دلتوں کو بڑا حصہ ملتا ہے۔ظاہر ہے کہ دلتوں کو تقسیم کرکے بی جے پی کو ہریانہ کی طرح مہاراشٹر میں بھی فائدہ ملنے کی امید ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان دلت ذیلی کوٹہ کو لے کر کیا چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد کانگریس کی حکومت والی ریاستوں تلنگانہ اور کرناٹک کے وزرائے اعلیٰ نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ اب ان کی ریاستوں تلنگانہ اور کرناٹک میں تمام کوٹہ کو لاگو کرکے ہی بھرتیاں کی جائیں گی۔ لیکن بعد میں بی جے پی کے بدلتے رویہ کی وجہ سے کانگریس خاموش ہوگئی۔
فی الحال بی جے پی اور کانگریس کا موقف خواہ کچھ بھی ہو، ملک کے ممتاز دلت چہرے اس فیصلے  کے خلاف ہیں۔ اتر پردیش کی سابق وزیر اعلی مایاوتی نے سپریم کورٹ کے درجہ بندی کے حکم پر سوال اٹھائے تھے۔بی آر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر بھیم آرمی کے بانی اور آزاد سماج پارٹی (کانشی رام) کے سربراہ چندر شیکھر آزاد اور لوک جن شکتی پارٹی(رام ولاس) کے سربراہ اور مرکزی وزیر چراغ پاسوان اور ان کی پارٹی سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل آوری کی سخت مخالف ہے۔حالانکہ عد الت کا مانناہے کہ  کچھ برادیاں باقی برادریوں سے زیادہ پس ماندہ ہیں۔ اس فیصلے کے حامیوں میں تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن، آندھرا پردیش کے چندرابابو نائیڈو، بہار کے نتیش کمار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی رہنما شامل ہیں۔کچھ لوگ اس فیصلے کی شاید اس وجہ سے بھی حمایت کر رہے ہیں ، کیوں کہ انھیں امید ہے کہ اس کا فائدہ انھیں مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں بھی مل سکتا ہے۔
************