’انڈیا ‘ سے ’این ڈی اے‘ آگے

تاثیر  20  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات سے قبل ’’انڈیا‘‘ اتحاد میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ کم سیٹیں ملنے کی وجہ سے تیجسوی یادو کافی ناراض ہیں۔ افواہ یہ بھی ہے کہ سیٹ شیئرنگ کا فیصلہ اگر صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوا تو جھارکھنڈ انتخابات میں آر جے ڈی ’’انڈیا‘‘ سے الگ ہو نے پر بھی غور کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے اگر ایسا ہوا تو یہ اپوزیشن کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ درحقیقت، جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے گزشتہ روز کہا تھا کہ 81 سیٹوں میں سے ان کی پارٹی جے ایم ایم اور کانگریس 70 سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ آر جے ڈی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے لیے 11 سیٹیں چھوڑی گئی ہیں۔سیٹ شیئرنگ کے اسی فارمولے نے تیجسوی یادو کو ناراض کردیا ہے، وہ مزید سیٹوں کی امید کر رہے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بہار کی سیاست کا اثر جھارکھنڈ میں بھی ہے، ایسے میں آر جے ڈی کو ہلکے میں نہیں لیا جانا چاہئے۔ شاید اسی لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ بڑا فیصلہ لے سکتے ہیں۔

گزشتہ سنیچر کو آر جے ڈی کے قومی ترجمان اور راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ منوج جھا نے بھی سخت لہجے میں کہا تھا کہ سیٹ شیئر نگ پر فیصلہ لینا دو منٹ میں نوڈلز بنانے جیسا نہیں ہے،لیکن جے ایم ایم اور کانگریس نے یکطرفہ فیصلہ کرکے اپنی سطح سے سیٹوں کی تقسیم کا اعلان کر دیا ہے۔ اس وجہ سے اب آر جے ڈی کا اپنا الگ راستہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جس طرح سے آر جے ڈی لیڈروں کی رضامندی کے بغیر اور ان کی غیر موجودگی میں اتحاد میں شامل پارٹیوں کے لئے سیٹوں کا اعلان کیا گیا ہے، اس سے ہمیں تکلیف ہوئی ہے۔ ایسے میں پارٹی کے اپنے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں۔ منوج جھا نے رانچی میں آر جے ڈی کی ریاستی اکائی کے لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کے بعد میڈیا کو بتایا تھا، ’’جب بہار اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور ہمارے رہنما تیجسوی یادو، پارٹی کے قومی چیف جنرل سکریٹری عبدالباری صدیقی، پارٹی کے جھارکھنڈ میں انچارج جئے پرکاش یادو اور ریاست کے صدر رانچی میں موجود ہیں، اس کے باوجود ان کی غیر موجودگی میں سیٹ شیئرنگ کا اعلان یکطرفہ طور پر کیا گیا ہے اور یہ کافی تکلیف دہ ہے۔ جھارکھنڈ میں ہماری طاقت بہت زیادہ ہے۔ ہم نے ریاست میں ایسی 15 سے 18 سیٹوں کی نشاندہی کی ہے، جہاں حمایت کی بنیاد آر جے ڈی کے حق میں ہے اور شاید ہم ان سیٹوں پر بی جے پی کو اکیلے ہی شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

دوسری جانب ’’انڈیا‘‘ اتحاد میں ، سیٹ شیئرنگ کو لیکر مچی اس ہلچل کے درمیان جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے لیے بی جے پی نے 19 اکتوبر کو 68 سیٹوں کے لیے اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کر دی تھی۔ فہرست کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کئی رہنماؤں کے ٹکٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ پارٹی نے اپنے چار ایم ایل اے کے ٹکٹ کاٹ دئے ہیں۔ سماریہ سے موجودہ ایم ایل اے کشون داس کی جگہ اجول داس کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اسی طرح سمری لال کی جگہ کانکے سے ڈاکٹر جیتو چرن رام کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جموا سے کیدار ہزارہ کی جگہ منجو دیوی کو امیدوار بنایا گیا ہے اور سندھوری میں اندرجیت مہتو کی جگہ ان کی اہلیہ تارا دیوی کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ سماریہ، جموا اور کانکے کے ایم ایل اے کا ٹکٹ اینٹی انکمبینسی رپورٹ کی بنیاد پر منسوخ کر دیا گیا ہے، جبکہ سندھوری کے ایم ایل اے کو ان کی خرابی صحت کی وجہ سے امیدوار نہیں بنایا گیا ہے۔ پارٹی کے ریاستی صدر بابولال مرانڈی کو گریڈیہہ ضلع کی دھنوار سیٹ سے امیدوار بنایا گیا ہے، حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والے سابق وزیر اعلی چمپئی سورین کو سرائے کیلا سے امیدوار بنایا گیا ہے اور جھارکھنڈ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر امر کمار بجری کو بوکارو ضلع کی چندنکیاری سیٹ سےامیدوار بنایا گیا ہے۔ جھارکھنڈ کے سابق سی ایم رگھوور داس کی بہو پورنیما داس ساہو کو جمشید پور ایسٹ سے امیدوار بنایا گیا ہے اور سابق سی ایم ارجن منڈا کی بیوی میرا منڈا کو پوٹکا سے امیدوار بنایا گیا ہے۔ روشن لال چودھری کو برکاگاؤں سیٹ سے امیدوار بنایا گیا ہے۔ اب تک وہ اس سیٹ پر بی جے پی کی اتحادی جماعت اے جے ایس یو کی جانب سے الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ اس بار وہ بی جے پی کے انتخابی نشان پر لڑیں گے۔ بوریو ایم ایل اے لوبن ہیمبرم، جنہوں نے حال ہی میں جے ایم ایم چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے، کو اس سیٹ سے امیدوار بنایا گیا ہے، جب کہ سیتا سورین کو جامتاڑا جنرل سیٹ سے امیدوار بنایا گیا ہے۔
ان کے علاوہ راج محل سے اننت اوجھا، لٹی پارہ سے بابودھن مرمو، مہیش پور سے نونیت ہبرم، شکاری پاڑا سے پریتوش سورین، نالہ سے مدھو چندر مہتو، دمکا سے سنیل سورین، جاما سے سریش مرمو، جرمنڈی سے دیویندر کنور، مادھو پور سے گنگا نارائن سنگھ۔دیوگھر سے نارائن داس کو امیدوار بنایا ہے۔ اسی طرح گوڈا سے امت کمار منڈل، مہاگما سے اشوک کمار بھگت، کوڈرما سے ڈاکٹر نیرا یادو،دھنباد سے راج سنہا اور جھریا سے راگنی سنگھ کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ باگھمارہ سے شتروگھن مہتو، بہرا گورہ سے ڈاکٹر دنیشانند گوسوامی، چکردھر پور سے ششی بھوشن ، کھرساواں سے سونارام بودرا ، رانچی سے سی پی سنگھ اور ہٹیا سے نوین جیسوال کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ یعنی این ڈی اے سے وابستہ پارٹیوں کے درمیان سیٹ شیئرنگ کو لیکر کسی بھی طرح کی رسہ کشی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس طرح سیٹ شیئرنگ کے معاملے میں این ڈی اے نے انڈیا اتحاد پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ سیٹ شیئرنگ کے فیصلے کے مطابق 81 اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی 68، اے جے ایس یو 10، جے ڈی یو 2 اور ایل جے پی (رام ولاس) ایک سیٹ پر مقابلہ کرے گی۔ جے ڈی یو اور ایل جے پی (رام ولاس) بھی جھارکھنڈ میں پچھلے کئی مہینوں سے الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے تھے، لیکن انہیں بہت کم سیٹیں دی گئی ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی بھی طرف سے کسی طرح کی کوئی تلخی سامنے نہیں آئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جھارکھنڈ میں 13 اور 20 نومبر کو دو مرحلوں میں ووٹنگ ہونے والی ہے۔ ووٹوں کی گنتی 23 نومبر کو ہوگی۔