نئی حکومت کو پھونک پھونک کر قدم اٹھا نا ہوگا

تاثیر  ۹  اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

ہریانہ اور جموں کشمیر اسمبلی کے انتخابی نتائج آ گئے ہیں۔ جہاں بی جے پی نے ہریانہ میں شاندار جیت درج کی ہے اور کانگریس کے مغرورخواب کو توڑ کر اپنی 10 سالہ حکومت مخالف لہر کو بے اثر کرتے ہوئے اقتدار کی ’’ہیٹ ٹرک‘‘ حاصل کی ہے، وہیں 2019 میں جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پہلی بار ہوئے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کانگریس اتحاد نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اب دونوں ریاستوں میں نئی حکومت کی تشکیل کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ ہریانہ میں جب لوگ کانگریس کی جیت کے دعوے کر رہے تھے، بی جے پی نے حالات کو اس طرح پلٹا دیا کہ سب دیکھتے ہی رہ گئے۔واقعی بی جے پی نے ہریانہ الیکشن میں تاریخ رقم کی ہے، جس کی مثال ہر الیکشن میں دی جائے گی۔ ہریانہ میں 52 سال بعد مسلسل تیسری بار کسی ایک پارٹی کی حکومت بن رہی ہے۔
اِدھرہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے طنز کے تیر برسانے شروع کر دئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ہمیں گالیاں دیتے تھے کہ ہمارے (اے آئی ایم آئی ایم کے) الیکشن لڑنے سے بی جے پی کو فائدہ ہو رہا ہے ،لیکن اس بار ہم بالکل بھی الیکشن نہیں لڑ رہے تھے تو پھر کیسے بی جے پی جیت گئی …..؟  اب جب بی جے پی وہاں (ہریانہ) جیت گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہے….. ؟  ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ ہریانہ میں بی جے پی 10 سالوں سے بر سر اقتدار تھی۔ حکومت کے حلاف عوام میں بے حد ناراضگی تھی۔ کانگریس پارٹی کو 10 سال کی اس حکومت مخالف لہر کا فائدہ اٹھانا چاہیے تھا، لیکن اس کے بر عکس بی جے پی نے کانگریس  پارٹی کے اندرونی اختلافات کا فائد ہ اٹھا لیا۔ چنانچہ بی جے پی کی کامیابی کے اصل ذمے دار کانگریس والے ہیں۔ ان کے پاس بی جے پی کو ہرانے کا سنہری موقع تھا، لیکن کانگریسی لیڈر اپنی اپنی سیاسی گوٹیاں سیٹ کرنے میں لگے رہ گئے۔ ہمارا ماننا ہے کہ مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس کو جیتنا چاہیے تھا اور چھتیس گڑھ میں بھی جیتنا چاہئے تھا۔‘‘ بہر حال اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی کے بیان کا لہجہ بھلے ہی تھوڑا سخت ہے ، لیکن اس کی صداقت سے کانگریس کے لوگ بھی انکار نہیں کر پا رہے ہیں۔
جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں یہ پہلا اسمبلی الیکشن تھا۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو خلاف توقع اکثریت ملی ہے۔ ظاہر ہے10 سال بعد نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے دوبارہ حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل کیا ہے۔دراصل جموں و کشمیر میں برسراقتدار آنے والی نیشنل کانفرنس (این سی) نے انتخابات کے دوران ایسے کئی وعدے کئے تھے،  جن کا ملک بھر میں چرچا ہوا تھا۔  این سی نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو آرٹیکل 370 کی بحالی کے ساتھ مفت بجلی اور گیس سلنڈر فراہم کرے گی۔ ساتھ ہی ’’سیاسی قیدیوں‘‘ کی رہائی کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ مخالفین کا الزام ہے کہ اس کی آڑ میں پتھراؤ کرنے والوں کو رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ تاہم، جیسے جیسے نئی حکومت بنانے کے لیے جوش و خروش بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ویسے آرٹیکل 370 سمیت مختلف مسائل کے حل کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے جا نے لگے ہیں۔ ان سوالوں میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا مرکز کے زیر انتظام حکومت اپنے طور پر فیصلے لے سکتی ہے ؟ کسی بھی فیڈلے میں مرکز اور لیفٹیننٹ گورنر کا کتنا عمل دخل ہوگا؟
اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ سیاسی و قانونی نقطۂ نظر کے مطابق ہر ایک سوال کے ایک یا اس سے زیادہ جواب ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک نئی حکومت کو آرٹیکل 370 میں تبدیلی کرنے سے متعلق آئینی حق کی بات ہے تو اس سلسلے میں ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کو آئین میں ایک عارضی کے طور پر شامل کیا گیا تھا، جسے اگست، 2019 میں غیر مؤثر کر دیا گیا۔ اس کی مخالفت کرنے والوں کے پاس دو بڑے دلائل تھے۔ پہلا یہ کہ ، اسے دستور ساز اسمبلی کے خاتمے کے بعد ختم نہیں کیا جا سکتا ہے اور اگر ختم کیا جاتا ہے توجموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ انضمام پر سوالات اٹھیں گے، لیکن 2019 کی تبدیلیوں سے یہ واضح ہے کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ ہی سب سے اوپرہے اور اس فیصلے کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کی ہے۔اس طرح مرکز کے زیر انتظام علاقے کی نئی حکومت کے پاس آرٹیکل 370 کو بحال کرنے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہوگا۔ اگر نیشنل کانفرنس کی حکومت اور اسمبلی اس سلسلے میں کوئی بھی قرارداد پاس کرتی ہے تو بھی مرکز کے زیر انتظام علاقے میں لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری کے بغیر اس کی کوئی آئینی اہمیت نہیں ہوگی۔ آرٹیکل 370 کی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے، قانون میں تبدیلی کے لیے ریاستی اسمبلی کی قرارداد اور ایل جی کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مطلق اکثریت سے صدر کی منظوری ضروری ہے۔
  نئی حکومت کو دفعہ 35۔ اے میں تبدیلی کے متعلق حاصل آئینی حق کے سلسلے میں بھی یہی بات سامنے آرہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سال 1954 میں اس وقت کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کے حکم سے دفعہ 35۔ اےکا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق جموں و کشمیر اسمبلی کو ریاست کے مستقل باشندے کی تعریف طے کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے بعد، 1956 میں، جموں و کشمیر کے آئین میں ایسی دفعات کا اضافہ کیا گیا ، جن کے مطابق صرف وہاں کے مستقل شہریوں کو جائیداد، ملازمت اور سرکاری اسکیموں کے فوائد حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ ان کے مطابق بھارت کی کسی دوسری ریاست کے شہری جموں و کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتے تھے۔ اس قانون کے مطابق ریاست سے باہر شادی کرنے والی خواتین کے بچوں کو مستقل شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ یہ قانون آرٹیکل 14 کے تحت مساوات کے خلاف تھا اور خواتین کے ساتھ امتیازی رویہ پر مبنی تھا۔ آرٹیکل 19 کے تحت لوگوں کو ملک بھر میں رہنے اور ملازمت کا حق حاصل ہے۔ ا س آئینی شق کوعلیحدگی پسند قرار دیتے ہوئے پانچ سال قبل ایک قانونی تبدیلی کے ذریعے ہٹا دیا گیا تھا، جسے سپریم کورٹ کے ذریعہ بھی درست قرار دیا گیا ہے۔ لہذا، یونین ٹیریٹری   کی نئی حکومت اور اسمبلی کو آرٹیکل 370 اور دفعہ 35-A کی بحالی سے متعلق کوئی شاید کوئی آئینی حق حاصل نہیں ہوگا۔اس طرح ریاست کے دوسرے مسائل کے حل سے متعلق حکومت کے اکثر فیصلوں پر عمل در آمد کے لئے ایل جی کی ضابطہ اجازت درکار ہو سکتی ہے۔چنانچہ ریاست کی نئی حکومت کوپھونک پھونک کر قدم اٹھا نا ضروری ہوگا۔