تاثیر 19 اکتوبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
مہار اشٹر کی موجودہ اسمبلی کی میعاد 26 نومبر کو ختم ہونے والی ہے۔اس اسمبلی میں کل 288 سیٹیںہیں۔ان پر آج سے ٹھیک ایک مہینہ بعد یعنی 20 نومبر کو ووٹنگ ہونے والی ہے۔ نتائج کا اعلان 23 نومبر کو ہونے والا ہے۔ آج سے پانچ دن قبل الیکشن کمیشن کے ذریعہ چناؤ کا شیڈول جاری کئے جانے کے بعد سے ہی تمام جماعتوں نے اپنی تیاریاں تیز کر دی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ریاست میں ایسی 38 اسمبلی سیٹیں ہیں، جہاں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان میں سے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے پچھلے لوک سبھا انتخابات کے دوران 20 سیٹوں پر اپنا ووٹ شیئر بڑھایا ہے۔ گزشتہ ماہ، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے 14 لوک سبھا حلقوں میں این ڈی اے کی شکست کے لئے ’’ووٹ جہاد ‘‘کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمانی انتخابات کے دوران مسلم ووٹروں کو بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے خلاف متحد کرنے کی ایک شعوری کوشش کی گئی تھی۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسا الزام ہے، جس کے سہارے این ڈی اے کے ذریعہ اسمبلی انتخابات کے دوران ووٹوں کو پولرائزڈ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم انتخابی اعداد و شمار کے حوالے سے بات کی جائے تو کچھ اور ہی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2019 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے 38 میں سے نصف حلقوں میں ووٹ شیئر بڑھایا ہے۔ان میں سے نو علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی 40 فیصد سے زیادہ ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق مہاراشٹر میں 1.3 کروڑ مسلمان ہیں۔ یہ تعداد ریاست کی کل آبادی کا 11.56 فیصد ہے۔ 2019 میں، بی جے پی اور کانگریس نے ان 38 سیٹوں میں سے 11-11 سیٹیں جیتی تھیں۔ اس کے بعد غیر منقسم شیو سینا نے 9، این سی پی نے3 اور اے آئی ایم آئی ایم اور ایس پی نے 2-2 سیٹیں حاصل کیں ۔ اس انتخابی صورتحال سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم ووٹروں میں کئی پارٹیوں نے اپنی پہچان بنائی ہے۔ مسلم ووٹروں کی اس شراکت نے سیاسی تانے بانے کو بدل دیا ہے۔ یہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ قابل ذکر ہے کہ38 سیٹوں پر اچھی خاصی مسلم آبادی کے باوجود موجودہ اسمبلی میں 10 میں سے صرف 8 مسلم ایم ایل ایز ان علاقوں سے منتخب ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ مسلم آبادی والے 10 علاقوں میں بی جے پی، کانگریس، شیوسینا اور ایس پی نے دو دو سیٹیں جیتی ہیں۔ جبکہ اے آئی ایم آئی ایم اور این سی پی نے 2019 میں ایک ایک سیٹ حاصل کی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم ووٹر اب متعدد آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ ان کے ووٹوں کی تقسیم سیاسی تانے بانے کو مزید پیچیدہ بنا تی ہوئی نظر آرہی ہے۔
اس سال لوک سبھا انتخابات میں مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) نے 48 میں سے 30 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ تاہم اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے 20 سیٹوں پر اپنے ووٹ شیئر میں اضافہ کیا ہے۔ یہ صورتحال بی جے پی کی نئی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ پارٹی اب مسلم ووٹروں کو اپنی طرف لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں مسلم اکثریتی علاقوں پر کم توجہ دی تھی۔ 2019 میں، پارٹی نے ان میں سے صرف 18 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔ اب بی جے پی نے مسلم ووٹروں کو اپنی طرف لانے کے لیے نئی حکمت عملی مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی رہنماؤں کو امید ہے ان کی یہ کوشش ضرور بار آور ہوگی۔رووَر اسمبلی حلقہ ، جسے کانگریس نے 2019 کے انتخابات میں جیتا تھا، بی جے پی نے وہاں اپنے ووٹ شیئر میں 20.13 فیصد کا سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔ وہ اسمبلی حلقے ، جہاں این ڈی اے(بی جے پی، ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیو سینا اور اجیت پوار گروپ کی این سی پی) کے ووٹوں میں10 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے، وہ تھے مان خورد، بھیونڈی ویسٹ، بائیکولہ، اورنگ آباد سنٹرل، اکوٹ، پربھنی اور بیڈ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی نے 2014 کے اسمبلی انتخابات کو چھوڑ کر ، جب اس نے مہاراشٹر کی تمام سیٹوں پر مقابلہ کیا تھا، 38 مسلم اکثریتی حلقوں پر بہت کم توجہ دی ہے۔ 2019 میں، اس نے ان میں سے صرف 18 سیٹوں پر پر چناؤ لڑا اور باقی سیٹیں غیر منقسم شیو سینا سمیت اپنے حامیوں کے لیے چھوڑ دی تھیں۔ مگر اس بار نے اپنی حکمت عملی بدل لی ہے۔
ابھی مہاراشٹر کے انتخابات کے سلسلے میں جو خبریں آ رہی ہیں، ان کے مطابق این ڈی اے میں 260 سیٹوں پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ 260 سیٹوں میں سے بی جے پی 142 سیٹوں پر اکیلے الیکشن لڑنے جا رہی ہے، جبکہ شنڈے گروپ کو 66 سیٹیں دی جا سکتی ہیں۔ اجیت پوار کے لیے صرف 52 سیٹیں چھوڑنے کی تیاری ہے۔ ابھی تک اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ اجیت کا گروپ مزید سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہتا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی اعلان تمام تنازعات کے حل کے بعد ہی ممکن سمجھا جا رہا ہے۔ویسے بڑی بات یہ ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی نے بھی صرف 260 سیٹوں پر ہی اتفاق کیا ہے۔ چند دنوں میں سیٹ شیئرنگ کے حوالے سے بھی اعلان ہونے والا ہے۔ صرف چند نشستیں رہ گئی ہیں ،جن پر معاملہ اٹکا ہوا ہے، باقی تمام نشستوں کے حوالے سے صورتحال واضح ہے۔ حالانکہ ادھو گروپ اور کانگریس کے درمیان تنازعہ بر قرار ہے، چند ایسی سیٹیں رہ گئی ہیں، جہاں دونوں پارٹیاں دعویٰ کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سنجے راوت براہ راست کانگریس ہائی کمان سے بات کرنے کے موڈ میں ہیں۔وہ کانگریس کے مقامی رہنماؤں سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس بھی ہائی کمان کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔کل ملاکر ریاست کے بر سر اقتدار اتحاد اور اپوزیشن اتحاد دونوں کے درمیان سیٹ شیئرنگ کا فیصلہ اطمینان بخش مرحلے تک نہیں پہنچا ہے۔ حالانکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے دونوں کی طرف سے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔مہاراشٹر کی باگ ڈور اس بار کن ہاتھوں میں ہوگی، عوام کی عدالت سے اس کا فیصلہ 23 نومبر کو سامنے آنے والا ہے۔
**********