یہ ہماری سیاست کے معیار کو سمجھنے کیلئے کافی ہے

تاثیر  04  نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

  اتر پردیش میں27,764 پرائمری اور جونیئر اسکولوں کو بند کرنے کے فیصلے پر چھڑی سیاست کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی ایک وضاحت سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے اسکولوں کو بند کر نے کا فیصلہ محض افواہ ہے۔بنیادی تعلیم کی ڈائرکٹر جنرل کنچن ورما  کے حوالے سے سوموار کے روز سے میڈیا میں ایسی خبریں چل رہی ہیں، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں 27000  سے زیادہ اسکول بند کر دیے جائیں گے۔ یہ باتیں بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔ریاست میں کوئی اسکول بند نہیں کیا جا رہا ہے۔ ریاست کا پرائمری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ اسکولوں میں انسانی وسائل اور بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے، تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اور طلباء بالخصوص لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح کو کم کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ اس نقطہ نظر سے، وقت وقت پر مختلف اسٹڈیز کئے جاتے ہیں۔ ہمارا مقصد تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنانا ہے۔ مگر کل سے پہلے تک ایک بڑی خبر ہوا میں گشت کر رہی تھی کہ اتر پردیش میں 27,764 پرائمری اور جونیئر اسکول اسکول بند ہو سکتے ہیں۔ محکمہ تعلیم نے اپنی تیاریاں تقریباً مکمل کر لی ہیں۔ محکمہ ان سکولوں کو بند کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جن میں طلباء کی تعداد پچاس سے کم ہے۔ یہاں پڑھنے والے بچوں کو قریبی سکولوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ ڈی جی ڈاکٹر جی کنچن ورما نے جائزہ میٹنگ میں ان اسکولوں کے انضمام کی تیاری کے لیے ہدایات دی ہیں۔  میٹنگ میں کہا گیا کہ یوپی میں 50 سے کم طلبہ والے پریشد اسکولوں کو دوسر ے اسکولوں میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ بیسک ایجوکیشن آفیسر 14 نومبر تک اس حوالے سے رپورٹ تیار کریں گے۔ ریاست کے 27764  پریشداسکولوں میں 50 سے کم طلباء ہیں۔  ایسی صورت حال میں کم تعداد والے اسکولوں کو گرام پنچایت کے کسی دوسرے اسکول یا کسی اور گرام پنچایت کے اسکول میں ضم کیا جاسکتا ہے۔
قابل ذکر ہے معلومات کے مطابق ڈی جی نے 23 اکتوبر کو محکمہ تعلیم کا جائزہ اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت ہند اسکولوں کو مکمل طور پر عملی بنانے کی سمت میں قدم اٹھا رہی ہے۔ کم اندراج والے اسکولوں کو قریبی اسکولوں میں ضم کردیا جائے گا۔ اسکولوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ 50 سے کم طلبہ والے بنیادی اسکولوں کے حوالے سے اعداد و شمار اور ترجیحی بنیادوں پر تیاریاں مکمل کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی رپورٹ کریں کہ کون سے اسکول کو کس قریبی اسکول کے ساتھ ضم کیا جاسکتا ہے۔میٹنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹرانسپورٹ، بچوں کی دستیابی اور دوسرے تمام پہلوؤں کے مدنظر فریم ورک کی تیاری کے دوران ہر اسکول کے لیے ایک صفحہ کا نوٹ تیار کیا جائے۔ ایسے تمام سکولوں کے بارے میں ضلع کا ایک کتابچہ بھی تیار کیا جائے۔ اس سلسلے میں 14 نومبر کو تمام بی ایس اے کے ساتھ میٹنگ ہوگی۔پھر اسی میٹنگ کی بنیاد پر بہوجن سماج پارٹی کی قومی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی یہ کہنے لگی تھیں کہ ریاستی حکومت کا 50 سے کم طلباء والے 27,764 خستہ حال کونسل پرائمری اور اپر پرائمری اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ ایسے میں غریب بچے کہاں اور کیسے پڑھیں گے؟ ریاستی حکومت ان کو دوسرے اسکولوں کے ساتھ ضم کرنے کے بجائے ضروری اصلاحات کرکے ان میں بہتری لانے کے اقدامات کرے۔ بی ایس پی سپریمو نے اتوار کو سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کی حالت خاص طور پر یوپی اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں خراب ہے۔ جس کی وجہ سے غریب گھرانوں کے کروڑوں بچے اچھی اور مناسب تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ اوڈیشہ حکومت کا کم طالبات والے اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ بھی غیر منصفانہ ہے۔ حکومتوں کی ان غریب اور عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔  جیسا کہ سروے سے واضح ہے، لیکن حکومت کا یہ فیصلہ درست نہیں کہ وہ تعلیم پر مناسب رقم اور توجہ دے کر ضروری بہتری لانے کے بجائے انہیں بند کر دے۔
دوسری جانب کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے بھی اس معاملے میںحکومت پر حملہ بول دیا۔ ان کا بھی یہی الزام تھا کہ اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے 27,764 پرائمری اور جونیئر اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ قدم تعلیمی شعبے کے ساتھ ساتھ دلت، پسماندہ، غریب اور محروم طبقات کے بچوں کے خلاف ہے۔ یو پی اے حکومت تعلیم کا حق ایکٹ لائی تھی، جس کے تحت یہ انتظام کیا گیا تھا کہ ہر کلومیٹر کے دائرے میں ایک پرائمری اسکول ہونا چاہیے تاکہ ہر طبقہ کے بچوں کے لیے اسکول کی رسائی ہو۔ فلاحی پالیسیوں اور اسکیموں کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ بی جے پی نہیں چاہتی کہ تعلیم کمزور طبقوں کے بچوں تک پہنچ جائے۔ حالانکہ پرینکا کے اس بیان کے فوراً بعد ہی ڈی جی کنچن ورما کی جانب سے اس خبر کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 23 اکتوبر کو ایک جائزہ میٹنگ ہوئی تھی، جس میں انہوں نے تمام بلاک اسکول ایڈمنسٹریٹرز (بی ایس اے) کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان خراب کارکردگی والے اسکولوں کا جائزہ لیں اور انضمام کی تیاری کریں۔اس سلسلے میں 13 یا 14 نومبر کو ڈسٹرکٹ بیسک ایجوکیشن آفیسرز کا اجلاس ہونا تھا ،جس میں اس معاملے پر بات کی جانی تھی۔  صرف لکھنؤ میں 1,618 سرکاری پرائمری اور اپر پرائمری اسکولوں میں سے 300 سے زیادہ اسکول ایسے ہیں جہاں طلباء کی تعداد 50 سے کم ہے۔ ظاہر ہے یہ صورتحال تعلیم کی ہمہ گیریت کے لحاظ سے قطعی اطمینان بخش نہیں ہے ۔ اس طرح کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے وقت وقت پر اعلیٰ سطحی میٹنگ ضرور ہونی چاہئے ۔رپورٹیں بھی تیار کی جانی چاہئیں ۔مگر جب اسکولوں کے بند کر نے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا ہے تب تک اسکولوں کو بند کرد ئے جانے سے متعلق فیصلے کی بات کہاں سے شروع ہو گئی، یہ غور کرنے کی بات ہے۔ ویسے اس بے بنیاد معاملے کو لیکر شوسل میڈیا پر جس طرح کی ہنگامہ آرائی ہوتی رہی ہے وہ ہماری آج کی سیاست کے معیار کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔