تاثیر 11 نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات،2024 کے پہلے مرحلے کی 43 سیٹوں کی انتخابی مہم کل شام کو رُک گئی۔یعنی چناوی شور تھم گیا ہے۔جلسے ان 43 سیٹوں کے لئے کل 13 نومبر کو ووٹنگ ہونی ہے۔ اُدھر مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے لیے تمام 288 سیٹوں پر 20 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس کے بعد 23 نومبر کو جھارکھنڈ اور دیگر ضمنی انتخابات کے ساتھ مہاراشٹرا کے چناوی نتائج کا اعلان ہو جائے گا۔
مہاراشٹر میں مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) اور مہایوتی کے درمیان مقابلہ ہے۔ اسی درمیان ایک سروے سامنے آیا ہے۔ سروے کے مطابق بی جے پی کی قیادت والی مہایوتی اتحاد کو ریاست میں واضح برتری حاصل ہو نے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔سروے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ مہایوتی کو 145 سے 165 سیٹیں مل سکتی ہیں، جب کہ اپوزیشن مہاویکاس اگھاڑی کو صرف 106 سے 126 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ بی جے پی کی قیادت والے اتحاد کو 47 فیصد ووٹ شیئر اور کانگریس کی قیادت والے اتحاد کو 41 فیصد ووٹ شیئر ملنے کی بات کہی گئی ۔ سروے کے مطابق، بی جے پی کو مغربی مہاراشٹر، ودربھ اور تھانےوکونکن علاقوں میں زبردست عوامی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ وہاں اسے بالترتیب 48 فیصد، 48 فیصد اور 52 فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ایکناتھ شندے مہاراشٹر میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے سب سے پسندیدہ چہرہ ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ 40 فیصد لوگوں نے شندے کو بطور وزیر اعلیٰ سپورٹ کیا، جب کہ 21 فیصد نےادھو ٹھاکرے کو اور 19 فیصد نے دیویندر فڑنویس کو اپنا پسندیدہ وزیر اعلیٰ مان رہے ہیں۔ سروے کے مطابق مہاراشٹر میں بی جے پی کی قیادت والے اتحاد کو زیادہ تر علاقوں میں زبردست حمایت مل رہی ہے۔
اِدھر جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کےپہلے مرحلے میں جن 43 اسمبلی سیٹوں کے لیے کل ووٹنگ ہونی ہے ان میں چھ ایس سی اور 20 ایس ٹی سیٹیں شامل ہیں۔ اس مرحلے میں کل 683 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔ ان میں سے 334 آزاد ہیں۔ کل امیدواروں میں سے 87 امیدوار قومی جماعتوں سے ہیں۔ جبکہ 32 امیدوار جھارکھنڈ کی تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں سے ہیں۔ 42 امیدوار ایسے ہیں جو دوسری ریاستوں کی تسلیم شدہ پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کل 188 امیدوار غیر تسلیم شدہ رجسٹرڈ جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ اس مرحلے میں کل 73 خواتین امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بھی ہونا ہے، جن میں سے 34 آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ایک تھرڈ جنڈر امیدوار بھی میدان میں ہے۔ نگمہ رانی ہٹیا اسمبلی حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ انتخابات کے اس مرحلے میں سابق وزیر اعلی چمپئی سورین کے علاوہ وزیر رامیشور اوراوں، رام داس سورین، بننا گپتا، متھیلیش ٹھاکر، دیپک بیرووا، بیدیا ناتھ رام، سی پی سنگھ، سریو رائے، بھانو پرتاپ شاہی، نیرا یادو، نیل کانتھ سنگھ منڈا، رام چندر چندراونشی، کملیش کمار سنگھ، کے این ترپاٹھی، گوپال کرشن پرتار عرف راجہ پیٹر وغیرہ جیسے لیڈروں کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔ اڈیشہ کے گورنر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ رگھوور داس کی بہو پورنیما داس، وزیر ستیانندرا بھوکتا کی بہو رشمی پرکاش، چمپئی سورین کے بیٹے بابولال سورین کے مستقبل کا فیصلہ بھی انتخابات کے اس مرحلے میں ہونا ہے۔اس مرحلے میں جن اسمبلی حلقوں کے لئے ووٹنگ ہوگی وہ ہیںکوڈرما، برکٹھا، برہی، برکاگاؤں، ہزاری باغ، سماریہ (ایس سی)، چترا (ایس سی)، بہراگوڑہ، گھاٹشیلا (ایس ٹی)، پوٹکا، (ایس ٹی)، جگسلائی (ایس سی)، جمشید پور ایسٹ، جمشید پور ویسٹ، اِچا گڑھ، سرائیکیلا (ایس ٹی)، چائی باسا(ایس ٹی) ،مجھگاؤں(ایس ٹی) ،جگناتھ پور (ایس ٹی) ،منوہر پور، چکردھر پور (ایس ٹی) ،کھرساواں (ایس ٹی)، تمنگ (ایس ٹی)، تورپا (ایس ٹی)، کھونٹی (ایس ٹی)، رانچی، ہٹیا، کانکے (ایس سی)،مانڈر (ایس ٹی)، سیسئی (ایس ٹی)، گملا (ایس ٹی)، بشنوپور (ایس ٹی)، سمڈیگا (ایس ٹی)، کولیبیرا (ایس ٹی)، لوہردگا (ایس ٹی)، مونیکا (ایس ٹی)، لاتیہار (ایس سی)، پانکی ، ڈالٹین گنج، وشرام پور، چھتر پور (ایس سی)، حسین آباد، گڑھوا اوربھاوناتھ پور۔
جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اپنی حکومت کی دوبارہ واپسی کے معاملے میں مطمئن لگ رہے ہیں، لیکن کسی طرح کا دعویٰ کرنے سے بچتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ بی جے پی کے نعرے ’’ بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ، ’’نہ تو وہ بٹیں گے اور نہ ہی ٹوٹیں گے ، لیکن یہ (بی جے پی) انتخابات میں کوٹے ضرور جائیں گے۔ ان کی حکومت کے ذریعہ رانچی کو کراچی بنا ڈالنے اور بنگلہ دیشی دراندازوں سے متعلق الزامات پر ہیمنت سورین کہتے ہیں ،’’ انہوں نے مخالفین کے ہر الزام کا جواب دینے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے۔‘‘حالانکہ وہ یہ بات ضرور کہتے ہیں یہ لوگ غریبوں کو گمراہ کرنے کے لیے جھوٹے نعرے اور الزامات لگاتے ہیں۔ انٹرنیٹ میڈیا پر بی جے پی کی دوڑ لگانے کے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ وہ بہت سی چیزوں میں ان (بی جے پی) سے پیچھے ہیں۔ وہ نہ صرف ذہین ہیں بلکہ وسائل سے بھی بھرپور ہیں۔ ان کا ہارن بھی ہائی وولٹیج کا ہے۔ ایمپلیفائر بھی بڑا ہے۔ جدیدٹیکنالوجی سے بھی لیس ہیں۔ ہم قبائلیوں اور دلتوں کے لیے کام کرتے ہیں اور اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ قبائلی، دلت اور غریب بھی ان باتوں کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔پری پول سروے کے حوالے سے ہیمنت سورین صاف صاف کہتے ہیں کہ وہ کوئی چناوی سروے نہیں کرا تے ہیں تاکہ بتا سکیں کہ انڈیا بلاک کی کیا پوزیشن ہے۔ وہ بی جے پی کی طرح پیشین گوئی کرنے والے بھی نہیں ہیں کہ’ ’400 پار‘‘ کا نعرہ دالیں ۔
ظاہر ہے جس طرح مہاراشٹر میں مہا وکاس اگھاڑی اور مہایوتی کے درمیان مقابلہ سیدھا مقابلہ ہے، ٹھیک اسی طرح جھارکھنڈ کا انتخابی مقابلہ بھی بالکل آمنے سامنے کا ہے۔ ایک طرف این ڈی اے ہے تو دوسری طرف انڈیا بلاک۔81 رکنی جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات، کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ نومبر کو ہونے والی ہے۔ ووٹوں کی گنتی 23 نومبر کو کی جائے گی۔ایسے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ23 نومبر کو ہی یہ واضح ہو سکے گا کہ دریا کے شور اور سمندر کے سکوت میں سب سے زیادہ طاقتور کون ہے۔