تاثیر 02 نومبر ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
اس وقت مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شباب پر ہیں۔ چناوی تیاریوں کے درمیان باغی امیدوار بھی میدان میں اتر کر اپنی اپنی پارٹی کا کھیل خراب کرنے پر آمادہ ہیں۔ مہاراشٹر کی بات کی جائے تو وہاں ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتری مہا یوتی اور ایم وی اے یعنی مہاوکاس اگھاڑی دونوں سے جڑے کئی رہنما ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد سے ہی ناراض ہیں۔ایسا لگ رہا ہے باغیوں کو مطمٔن کئے بغیر انتخابات کی تیاریاں کبھی پوری بھی نہیں ہو سکیں گی۔چنانچہ دونوں اتحادوں کے بڑے رہنما باغیوں کو منانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دریں اثنا مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی اور بی جے پی لیڈر دیویندر فڑنویس کا کہنا ہے کہ جو ناراض ہیں وہ ہمارے اپنے لوگ ہیں، ہم انہیں جلد ہی راضی کر لیں گے۔ دونوں اتحادوں کے کل تقریباََ 50 باغی امیدوار میدان میں ہیں، جن میں سے مہایوتی کے سب سے زیادہ 36 باغیوں نے کاغذات داخل کیے ہیں۔ کاغذات نامزدگی واپس لینے کا آخری دن کل یعنی 4 نومبر ہے۔ دونوں اتحادوں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تب تک باغیوں کو اعتماد میں لے کر، جہاں بھی وہ اپنی ہی پارٹی کے امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں، انہیں اپنے نام واپس لینے پر آمادہ کر لیا جائے گا۔ مہا وکاس اگھاڑی کے لیڈروں کا بھی کچھ ایسا ہی دعویٰ ہے۔مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ اتنے کم وقت میں اتنے سارے باغیوں کو قائل کرنا آسان نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں تقریباً 50 ایسے امیدوار ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی سے الگ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں بی جے پی کے 19 اور شندے سینا کے 16 نام شامل ہیں، جب کہ اجیت پوار کی این سی پی سے وابستہ ایک امیدوار ہے۔
واضح ہو کہ ایکناتھ شندے کی پارٹی کے نو باغیوں نے ان سیٹوں سے پرچہ نامزدگی داخل کیے ہیں جہاں سے بی جے پی نے پہلے ہی امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ ان سیٹوں میں نوی ممبئی میں ایرولی، ممبئی میں اندھیری ایسٹ، جلگاؤں ضلع کا پیچورا اور تھانے میں بیلا پور شامل ہیں۔ بی جے پی کے 10 باغی امیدواروں نے ان سیٹوں سے پرچہ نامزدگی داخل کیے ہیں، جہاں شیوسینا کے امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیے ہیں۔ ان سیٹوں میں علی باغ، رائے گڑھ کی کرجت، بلدانہ، ممبئی کے مضافاتی علاقے بوریولی اور جالنا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح بی جے پی کے نو باغی اور شیوسینا کے سات امیدواروں نے اجیت پوار کی این سی پی کے خلاف سر اٹھایا ہے۔ این سی پی کے واحد باغی امیدوار نے ناسک کی نندگاؤں سیٹ سے پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔اُدھر مہا وکاس اگھاڑی کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں 14 باغی امیدوار ہیں، جن میں سب سے زیادہ کانگریس کے 10 ہیں۔ کانگریس کے ان چار باغی امیدواروں نے تھانے کی کوپری پچ پکھڑی، ممبئی کی بائیکلہ اور ناگپور کی رام ٹیک سیٹ پر اپنے اتحادیوں کے خلاف نامزدگی داخل کی ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کے باغیوں نے ممبئی کے مضافاتی علاقے مانخورد شیواجی نگر سیٹ سے پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔ کچھ دیگر سیٹوں پر این سی پی شرد پوار نے پارٹی کے باغی ادھو ٹھاکرے کی سینا اور کانگریس کے خلاف پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔حالانکہ ایم وی اے کے رہنما بھی اپنے باغی ساتھیوں منانے میں مصروف ہیں۔ ادھو کی شیو سینا کے رہنما سنجے راوت کا کہنا نے کہا کہ امید ہے کہ جلد ہی تمام باغیوں کو سمجھا بجھا لیا جا ئے گا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ مہاراشٹر کے دونوں سیاسی اتحاد میں اندر ہی اندر بے چینی کی صورتحال ہے۔
اِدھرجھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کو دو دو محاذوں پر لڑنے کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ کئی رہنما ٹکٹ نہیں ملنے سے ناراض ہیں اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تاہم پارٹی نے باغیوں کو منانے کی پوری کوشش کی ہے۔ان میں سے کچھ لیڈر مان بھی گئے۔ لیکن، کچھ رہنما اب بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ پارٹی کو لگ رہا ہے اگر وہ آخر آخر تک میدان میں رہ گئے تو چناوی کھیل کو یقینی طور پر خراب کر سکتے ہیں۔ در اصل ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد سے پارٹی میں بے اطمینانی دکھائی د ینے لگی تھی۔ کئی رہنماؤں نے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار تے ہوئے پارٹی قیادت پر تعصب کا الزام بھی لگایا۔اور پھر چند ہی دنوں کے بعد یہ ناراضگی بغاوت میں بدل گئی ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لیڈروں نے آزاد امیدواروں کے طور پر پرچہ نامزدگی داخل کر دیا ۔ اس بغاوت کو روکنے کے لیے پارٹی نے اپنے قداور لیڈر اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کو میدان میں اتارا۔انھوں نےباغیوں سے بات کی اور انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔ ان کی کوششوں سے کچھ لیڈر مطمٔن ہوکر اپنی نامزدگی کو واپس لےلیا۔ تاہم، کچھ رہنما اب بھی میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور پارٹی کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ رج دھنوار سے نرنجن رائے اور گملا سے مسیر کجور نے پارٹی قیادت کو نظر انداز کرتے ہوئے آزاد امیدوار کے طور پر اپنی نامزدگی برقرار رکھی۔ ایم پی نشی کانت دوبے خود نرنجن رائے کو سمجھانے گئے، لیکن وہ نہیں مانے۔ مانا جا رہا ہے کہ باغی امیدوار بی جے پی کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ان امیدواروں کی وجہ سے بی جے پی کا ووٹ تقسیم ہونے کا خطرہ ہے، جس سے پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ وقت بہت کم ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ مہاراشٹر میں مہا یوتی اور ایم وی اے یعنی مہاوکاس اگھاڑی اور جھارکھنڈ میں بی جے پی اپنے باغی ساتھیوں کو منانے کے لئے اب کون سا حربہ استعمال کر رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ تمامتر کوششوں کے باوجود بغاوت کے دور سے گزر رہی یہ پارٹیاں اگر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتی ہیںتو انتخابی میدان میں انھیں بیک وقت دودو محاذوں پر لڑنا پڑ سکتا ہے۔اورایسے میں ان کی شکست بھی ہو سکتی ہے۔