بھارت اور چین : بہترتعلقات کی صبح کا آغاز

تاثیر 29  جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

دنیا میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلسل دباؤ کے بعد چین  اِن دنوںپوری طرح سے بیک فٹ پر ہے۔ دوسری طرف اس صورتحال کو بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کی ایک نئی صبح کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر دونوںممالک کے مابین  دوطرفہ تجارتی اور اقتصادی مسائل پر اختلافات کو حل کرنے پر اتفاق ہو گیا  ہے۔ اس کے تحت اس سال گرمیوں میںکیلاش مان سروور یاترا دوبارہ شروع ہونے والی ہے۔اس کے علاوہ بھارت اور چین دو طرفہ تبادلوں کو بہتر بنانے کےلئے دیگرکئی اقدامات کریں گے، ان میں دونوں دارالحکومتوں کے درمیان براہ راست پروازیں بحال کرنا؛ صحافیوں اور تھنک ٹینکس کو ویزا دینا اور سرحد پار دریا کے ڈیٹا کو شیئر کرنے سے جیسے کام شامل ہیں۔اس بات کی توثیق بھارت کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے ذریعہ ہوئی ہے۔ بیان میں حالانکہ سرحدی صورتحال کا کوئی ذکر نہیںہے، لیکن اتنا ضرور کہا گیا ہے کہ ’’ان مذاکرات کو مرحلہ وار عملی جامہ پہنایا جائے گا ساتھ ہی ان کا استعمال ایک دوسرے کی دلچسپی اور تشویش کے ترجیحی شعبوں میں کیا جائے گا۔
خیال رہے بھارت کے خارجہ سکریٹری وکرم مصریتین روز قبل چین کے دورے پر بیجنگ پہنچے تھے، جہاں انہوں نے نائب چینی وزیر خارجہ سن ویڈونگ، وزیر خارجہ وانگ یی اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے بین الاقوامی محکمہ کے وزیر لیو جیان چاؤ سے ملاقات کی تھی۔ ان ملاقاتوں کے اختتام پر دونوں ممالک نے رواں برس گرمیوں میں کیلاش مانسروور یاترا دوبارہ شروع کرنے اور دونوں دارالحکومتوں کے درمیان براہ راست پروازوں کی بحالی پر اتفاق کیا۔واضح رہے کہ کیلاش مانسروور کی یاترا کیلاش پروَت اور تبت میں مانسروور جھیل کی ایک مذہبی یاترا ہے، جو ہندوؤں، جینوں، تبتیوں اور بودھمذہب کے پیروکاروں کے لیے بہت ہی مقدس زیارت سمجھی جاتی ہے۔مگر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے سبب کئی برسوں سے بھارتی پیروکار یاترا سے محروم رہے ہیں۔
واضح ہو کہ  بھارت اور چین کے درمیان تعلقات 2020 میں ہونے والے سرحدی تصادم کے بعد سے کشیدہ رہے ہیں۔اسی کشیدگی کو ختم کرنے کے مقصد سےپچھلے دنوں دونوں ممالک کے درمیان یہ اعلیٰ سطحی ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک ’جلد از جلد‘ 5 سال بعد پروازیں بحال کرنے کے لیے ایک فریم ورک پر بات چیت کریں گے۔ بیان کےمطابق دونوں ممالک کے درمیان براہ راست فضائی خدمات دوبارہ شروع کرنے کا ایک اصولی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جلد ہی پروازیں بحال کی جائیں گے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ گزشتہ تقریباََ پانچ برسوں سے چین اور بھارت میں براہ راست مسافر پروازوں کے ذریعہ کوئی رابطہ نہیں ہے۔بھارت اور چین کے مابین پروازوں کا سلسلہ ابتدا میں کووڈ19 کی وبا کے سبب روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعد دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے  ان دونوں ممالک کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہی نہیں ہو پایا۔دریں اثنادونوں ممالک کے مابین سن 2020 کے وسط میں ہمالیائی خطہ لداخ کی وادی گلوان کے پاس ایک متنازعہ سرحد پر چین اور بھارتی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپ کے دوران  20بھارتی اور 4 چینی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد تعلقات مزید  کشیدہ ہو گئے۔اس وجہ سے بھارت نے ملک میں چینی کمپنیوں کے لیے ملک میں سرمایہ کاری کو  مشکل بنا دیا اور چین کی سیکڑوں مقبول ایپس پر بھی پابندی عائد کردی۔ اس کے ساتھ ہی  دونوں ممالک کی طرف سے آنے والی براہ راست پروازوں کو روک دیا گیا ۔ تاہم اس دوران دونوں ممالک کے درمیان کارگو پروازیں چلتی رہیں۔بعد ازاں، گزشتہ سال اکتوبر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی برکس سمٹ کے دوران 5 سال بعد ہونے والی پہلی باضابطہ ملاقات سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بتدریج بہتری آنے کا سلسلہ  شروع ہو گیاتھا۔اس کے بعد ہوئی مذکورہ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں موجود مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ ان کو جلد از جلد حل کیا جاسکے اور طویل مدتی پالیسی کو فروغ دیا جاسکے۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سست معیشت اور خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تجارتی دھمکیوں کے بعد کی صورتحال کے تقاضے کے مطابق چین اور بھارت مل کر کام کرنے کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق کووڈ وبا سے پہلے چین اور بھارت کے درمیان ماہانہ تقریباً 500  براہ راست پروازیں اڑا کرتی تھیں۔  بعد ازاں بھارت اور چین  کے درمیان فضائی رابطہ بحال ہو گیا تھا، لیکن مسافروں کے لیے پروازیں ابھی تک بند ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ان کی بحالی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ چین کی وزارت خارجہ نے گرچہ پروازیں دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے کا خاص طور پر ذکر نہیں کیاہے،  تاہم اس نے کہا ہے کہ دونوں ممالک گزشتہ سال سے ہی اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ چینی وزارت خار جہ کا مانناہے کہ چین اور بھارت کے درمیانتعلقات کی بہتری اور ترقی دونوں ممالک کے بنیادی مفاد میں ہے۔نئی دہلی بیسڈ’’ آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن تھنک ٹینک ‘‘ میں خارجہ پالیسی کے سربراہ ہرش پنت  کا کہنا ہے کہ  بھارت اور چین دونوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور دونوں اس بات کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اقتصادی تعلقات کو اس طرح منظم کیا جائے، جس سے دونوں ممالک کا فائدہ ہو۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ڈونالڈ  ٹرمپ کی جانب سے چین کی معیشت کے لیے خطرہ بڑھتا ہے تو چین بھارت کے ساتھ ایسے تعلقات ضرور  چاہے گا جو 2020 کے مقابلے میں معاشی طور پر مضبوط ہوں۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ظاہر سی بات ہے اسے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی صبح کاآغاز ضرور مانا جانا چاہئے۔