تاثیر 23 جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
اکثرایسا َ ایسا دیکھا جاتا ہے کہ پانچ چھ سال کی عمر والے بچے جمعہ کے دن مسجد میں پہلے آکر جب بڑوں کی خالی صف میں بیٹھ جاتے ہیں ، تو بعد میں آنے والے مصلیان حضرات ان بچوں کو پچھلی صف میں جانے کا اشارہ کرکے خود ان کی جگہ پر قابض ہو جاتے ہیں ۔عموماََ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک بڑے لوگ مسجد میں آتے رہتے ہیں۔یعنی بڑے لوگوں کے آنے تک کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ پہلے آنے والے بچوں کوسب سے پچھلی صف میں بھی جگہ نہیں مل پاتی ہے۔ایسی صورت میں در بدری کے شکار ان معصوموںکو جوتے چپل رکھے جانے والے مقام کی پناہ میں جانا پڑتا ہے یا کبھی وہاں سے بھی محروم کر دئے جاتے ہیں۔ کچھ بڑے لوگ تو نماز کی حالت میں بھی بچوں کو کھینچ کر پچھلی صف میں کرکے خود ان کی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔گذشتہ جمعہ (17 جنوری) کو پٹنہ کی ایک مسجد میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ تقریباََ 5 سال کا ایک بچہ اپنے والد کے ساتھ بہت پہلے سے مسجد میں آکر بڑوں کی صف میں بیٹھا ہوا تھا۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں امام صاحب کی بہترین تقریر کے بعد جب سنت پڑھنے کا وقت آیا تو اپنے والد صاحب کی طفلانہ تقلید کرتے ہوئے اس نے بھی نماز ادا کی۔ اسی دوران ایک صاحب مسجد میں تشریف لائے ۔ آتے ہی ان کی نظر بچے پر گئی۔انھوں نے بغل میں بیٹھے بچے کے والد کو عجیب سی سوالیہ نظروں سے دیکھا ہے۔ صف میں بیٹھے دو تین لوگوں کی نظریں بھی بچے پر تھیں۔ اسی درمیان خطبہ شروع ہو گیا۔خطبہ کے دوران امام صاحب کی نظر بھی بچے پر پڑ گئی۔ وہ خطبے کی حالت میں تھے، اس لئے ہاتھ کے اشارے سے ہی انھوں نے اپنے اعتراض کا اظہار کر دیا۔تبھی ایک صاحب نے سر گوشی کے انداز میں کہا کہ بڑوں کی صف میں چھوٹے بچوں کی موجودگی سے نماز میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ بہر حال نتیجہ یہ ہوا کہ بیچارے والد صاحب کو اپنے بچے کے ساتھ صف کے کنارے جا کر نماز جمعہ ادا کرنی پڑی۔خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چھوٹے بچوں کا بڑوں کی صف میں شامل ہونا ایک ایسا موضوع ہے، جس پر اکثر والدین اور مسجد میں آنے والے نمازی غور کرتے ہیں۔ بعض اوقات والدین یہ سوچتے ہیں کہ کہیں بچوں کی موجودگی سے نماز میں خلل تو نہیں پڑے گا، یا ان کا شرارتی رویہ دوسروں کی عبادت میں مداخلت کا باعث تو نہیں بن جائے گا۔ اس حوالے سے اسلامی تعلیمات اور رسول اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی لینا نہایت ضروری ہے۔
اسلامی شریعت میں نماز کو ایک اہم عبادت اور مسلمانوں کے لیے ایک مشترکہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ نماز میں صف بندی کا مقصد اتحاد، نظم و ضبط اور بھائی چارے کا عملی مظاہرہ کرنا ہے۔ اس صف میں بچوں کی شمولیت بھی اسی نظم کا حصہ ہے ، ان کے شامل ہونے سے نماز پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ نبی اکرم ﷺ نے کبھی بھی بچوں کو صف سے نکالنے یا ان کی موجودگی کو نماز کے لیے مخل سمجھنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ آپ ﷺ نے بچوں کو مسجد میں آنے کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں مسلمانوں کی اجتماعی عبادات کا حصہ بنایا۔نبی اکرم ﷺ کی شفقت اور بچوں سے محبت رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بے شمار مواقع ایسے ملتے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بچوں کے ساتھ بے پناہ محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے بچوں کو مسجد میں آنے، بڑوں کے ساتھ صف میں شامل ہونے اور نماز میں شرکت کا موقع دیا۔ایک مشہور حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ، جو نبی اکرم ﷺ کے نواسے تھے، کبھی کبھی نماز کے دوران آپ ﷺ کی پشت پر چڑھ جاتے تھے۔ آپ ﷺ نے کبھی انہیں جھڑکا یا ان کی حرکتوں پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ آپ ﷺ نے ان کی معصومیت کو قبول کیا اور نماز کو محبت اور سکون کے ساتھ مکمل کیا۔ یہ رویہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بچوں کی موجودگی اور ان کے فطری اعمال سے نماز خراب نہیں ہوتی۔بچوں کو نماز کے آداب سکھانا والدین اور اساتذہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ بچوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ مسجد ایک مقدس جگہ ہے، جہاں سکون اور ادب سے رہنا چاہیے۔ نماز کے دوران خاموشی اختیار کرنا اور دوسروں کی عبادت میں مداخلت نہ کرنا ان کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔رسول اللہ ﷺ نے تربیت کے اصول ہمیں سکھائے ہیں کہ بچوں کے ساتھ سختی کے بجائے نرمی اور محبت سے پیش آیا جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’سانی پیدا کرو، سختی نہ کرو، خوشخبری دو اور نفرت نہ دلاؤ۔‘‘یہ اصول بچوں کی تربیت میں نہایت اہم ہے۔ جب بچوں کو محبت اور حکمت کے ساتھ سمجھایا جائے تو وہ بہتر طور پر سیکھتے ہیں اور ان کی دلچسپی عبادات میں بڑھتی ہے۔
مسجد میں بچوں کی موجودگی کا مقصد انہیں دین کے قریب لانا اور عبادات کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے۔ جب بچے مسجد آتے ہیں تو وہ اجتماعی عبادات کے ماحول کو دیکھتے ہیں، اس سے ان کے دل میں نماز کی محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ بچپن سے ہی اس عمل کے عادی ہو جاتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں بچے مسجد میں آیا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے کبھی انہیں روکا نہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں بچوں کی موجودگی نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ یہ ان کی دینی تربیت کے لیے ضروری بھی ہے۔لبعض اوقات بچے نماز کے دوران شور مچاتے ہیں یا دیگر نمازیوں کی توجہ ہٹانے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے مواقع پر والدین اور مسجد کے نمازیوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ سختی کی جائے تو اس سے وہ مسجد آنے سے کترانے لگتے ہیں، جو ان کی دینی تربیت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔کئی مساجد میں بچوں کے لیے خاص جگہ مختص کی جاتی ہے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ نماز سیکھ سکیں اور ان کے اعمال دوسروں کے لیے مخل نہ ہوں۔ یہ طریقہ بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے، لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کو مکمل طور پر الگ کر دینا ان کی تربیت کے مقصد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بچے بڑوں کے ساتھ صف میں شامل ہوں تاکہ وہ ان سے سیکھ سکیں اور عبادت کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔بہر کیف اسلامی تعلیمات کے مطابق، بچوں کا نماز کے دوران بڑوں کی صف میں شامل ہونا جائز ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا اسوہ ہمیں سکھاتا ہے کہ بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا رویہ اپنایا جائے اور انہیں دینی ماحول کا حصہ بنایا جائے۔بچوں کی مسجد میں موجودگی ان کے ایمان کو مضبوط کرنے اور دینی شعور کو پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ والدین اور نمازیوں کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور بچوں کی فطری حرکات کو برداشت کریں، تاکہ وہ دینی ماحول کو خوش دلی سے قبول کریں اور ایک بہتر مسلمان اور اعلیٰ درجہ کے انسان بن سکیں۔