عوام اُسی کی سنیں گے ، جو عوام کی سنتا ہے

تاثیر  10  جنوری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے دہلی اسمبلی انتخابات کے لیے اپنی فہرست جاری کی ہے۔اس فہرست کے مطابق پارٹی نے  کل 29 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ ان 29 سیٹوں میں عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال اور دہلی کے موجودہ سی ایم آتشی مارلینا کی سیٹ بھی شامل ہے۔ کیجریوال کی نئی دہلی اسمبلی سیٹ پر بی جے پی نے سابق ایم پی پرویش صاحب سنگھ ورما کو اور کالکاجی سیٹ پر آتشی کے مقابلے میں جنوبی دہلی کے سابق ایم پی رمیش بدھوڑی کو میدان میں اتارا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں لیڈروں کو کیجریوال اور آتشی کے سامنے اتار کر بی جے پی نے ایک بڑٓ چناوی کھیل کھیلا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے بی جے پی نے انتخابی جنگ میںعام آدمی پارٹی کے دونوں بڑے لیڈروں کو پھنسانے کی کوشش کی ہے۔سر دست اگر کالکاجی اسمبلی سیٹ کی بات کی جائے تو اس کا سیاسی منظر نامہ گزشتہ تین دہائیوں سے انتہائی اہم رہا ہے۔ ستمبر 2024 تک یہ سیٹ دہلی حکومت میں ایک وزیر کے نام سے وابستہ تھی، لیکن بعد میں اسے سی ایم کی سیٹ کہا جانے لگا۔یہ علاقہ سیاسی نقطۂ نظر سے بہت حساس ہے اور یہاں کے انتخابی نتائج قومی سطح پر بھی موضوع بحث بن جاتے ہیں۔ گزشتہ 30 سالوں میں، بی جے پی نے صرف ایک بار 1993 میں یہ سیٹ اپنے طور پر جیتی تھی۔ تاہم 2013 میں شرومنی اکالی دل کے رہنما ہرمیت سنگھ کالکا نے یہ سیٹ بی جے پی کے نشان پر جیتی تھی۔ کانگریس پارٹی نے یہ سیٹ تین بار جیتی ہے، لیکن پچھلے تین انتخابات میں پارٹی تیسرے نمبر پر رہ جا رہی ہے۔ فی الحال یہ سیٹ دہلی کے وزیر اعلیٰ آتشی کے پاس ہے، جو عام آدمی پارٹی کے لیڈر ہیں اور اس بار بھی امیدوار ہیں۔ بی جے پی نے آتشی کے خلاف رمیش بدھوڑی کو میدان میں اتارا ہے، جب کہ کانگریس نے اس سیٹ کے لئےدہلی خواتین سیل کی صدر الکا لامبا کو ٹکٹ دیا ہے۔
  آتشی کو دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے جیل سے رہائی کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ تاہم عام آدمی پارٹی نے واضح کیا ہے کہ اگر وہ انتخابات جیتتی ہے تو کیجریوال وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ دریں اثنا، کانگریس امیدوار الکا لامبا نے آتشی کو ’’عارضی وزیر اعلی‘‘ کہہ کر طنز کیا ہے۔ اپنی چناوی مہم کے دوران یہ کہتی رہتی ہیں کہ میں نے چیف منسٹرس اور ڈپٹی چیف منسٹرس کے بارے میں سنا تھا، لیکن اب ہم عارضی چیف منسٹرس کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہیں بی جے پی امیدوار رمیش بدھوڑی بیان بازی کے معاملے میں دو قدم آگے ہیں ۔انتخابی مہم کے دوران رمیش بدھوڑی کے متنازعہ بیانات نے انہیں سرخیوں میںلا دیا ہے۔  پچھلے دنوںکالکاجی میں ایک میٹنگ کے دوران انہوں نے پرینکا گاندھی کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کیا اور بعد میں آتشی کا کنیت ان کے والد سے جوڑ کر ایک تنازعہ کھڑا کردیا۔ ان بیانات کی مذمت آج بھی ہو رہی ہے۔لوگوں کا کہنا ہے ،’’ اس طرح کے بیانات امیدواروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بہن بیٹیاں سب کی مشترکہ ہوتی ہیں، اور ایسی زبان استعمال کرنا غلط ہے۔‘‘ آتشی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس معاملے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ، ’’ مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ بدھوڑی اس حد تک گر جائیں گے۔‘‘  رمیش بدھوڑی کے بیانات کے سلسلے میں عام لوگوں کا بھی یہی کہنا ہے، ’’ایک پڑھا لکھا ووٹر ان چیزوں کو برداشت نہیں کرے گا۔‘‘ واضح ہو کہ یہ وہی رمیش بدھوڑی ہیں ، جنھوں نےستمبر 2023 میں پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اس وقت کے بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کو بھدّی بھدّی گالیاں دی تھیں۔ بی جے پی نے ان کے اس رویہ پر انھیں وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا۔ اس کے بعد معاملہ لیپا پوتی کا شکار ہو گیا۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس بار بی جے پی نے اپنے معروف لیڈروں کو نمایاں چہروں کے خلاف میدان میں اتارنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ تاہم، کالکاجی میں گجر برادری کے ووٹوں کی تعداد بہت کم ہے، جب کہ پنجابی ووٹر یہاں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ بی جے پی کے کچھ سینئر لیڈروں نے بھی اس فیصلے پر ناراضگی ظاہر کی اور اسے پارٹی کی حکمت عملی کی کمزوری قرار دیا۔ قابل ذکر ہے کہ  2020 میں پہلی بار عام آدمی پارٹی نے آتشی کو کالکاجی سے اپنا امیدوار بنایا تھا۔ انہوں نے یہ انتخاب 11,393 ووٹوں کے فرق سے جیتا تھا۔ اس بار وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس بار مقابلہ سخت ہوگا، کیونکہ رمیش بدھوڑی میدان میں ہیں۔وہ ایک پرانے اور ملنسار شخص ہیں۔ اس بار کانگریس نے الکا لامبا پر داؤ کھیلا ہے۔چناوی مہم کے دوران آتشی اکثر و بیشتر الکا لامبا  کے نشانے پر رہتی ہیں۔چناوی میدان میں سیاسی جماعتیں یا ان کے امیدوار کیا کر رہے ہیں یا کیا کہہ رہے ہیں، اس سے عام ووٹرز کو زیادہ کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ دہلی میں انتخابی جیت در اصل پارٹی کی کارکردگی پر بھی منحصر ہے۔ مثلاََ2015 میں،عام آدمی پارٹی نے چاندنی چوک سے الکا لامبا کو ٹکٹ دیا تھا اور وہ 50فیصدووٹ لے کر جیت گئیں۔ لیکن جب وہ 2020 میں کانگریس میں واپس آئیں تو انہیں صرف 5فیصد ووٹ ملے۔ مقامی لوگوں کے مطابق آتشی نے اپنے علاقے میں کئی ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ اس کا اعتراف علاقے کے عوام بھی کہتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ آتشی ہمارے مسائل سنتی ہیں اور ان کے حل کے لئے کوشش بھی کرتی ہیں۔انھوںنے سڑکوں کی مرمت اور پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے سمیت کئی مسائل کو حل کیا ہے۔واضح ہو کہ دہلی اسمبلی کے انتخابات 5 فروری کو ہوں گے اور نتائج کا اعلان 8 فروری کو کیا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بار کالکاجی سیٹ پر سہ رخی مقابلہ ہے۔ ایک طرف آتشی کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف یہ سیٹ بی جے پی اور کانگریس کے لیے اقتدار میں واپسی کا چیلنج بن رہی ہے۔اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ووٹر کس کا ساتھ دیتے ہیں اور کالکا جی کا سیاسی مستقبل کس سمت چلتا ہے۔مگر علاقے کےعوام کا کہنا ہے،’’ہمیں ہوا ہوائی باتوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ ہم اسی کی سنیں گے ، جو ہماری سنتا ہے۔ ‘‘