برخاستگی سے کم کی سزا مناسب نہیں

تاثیر 05  فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

بہار کے ضلع مدھوبنی کے تھانہ بینی پٹّی کے پولیس اہلکاروں کے ذریعہ ایک مسجد کے امام کو بے دردی سے پیٹنے، مانگنے پر پینے کے لئے پانی نہیں دینے، ان کے مذہب کے حوالے سے گالی گلوچ کرنے اور مبینہ طور پر 25 ہزار روپیہ لیکر چھوڑنے کا معاملہ راج بھون پہنچ چکا ہے۔مطالبہ کیا گیا ہے کہ قانون و انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے امام کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے والےڈی ایس پی اور دیگر پولیس عملہ کے حلاف سخت کارروائی کی جائے۔
درحقیقت، پچھلے ہفتے بینی پٹی تھانہ علاقہ کے کٹریا گاؤں کے رہنے والے مولانا محمدفیروز کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا ، جس میں انھوں روتے بلکتے ہوئے ، بینی پٹی تھانے کے ڈی ایس پی یوگیندر کمار اور دیگر پولیس اہلکاروں کے ذریعہ، گاڑی کی چیکنگ کے دوران جائے وقوع پر ہی ان کے ساتھ کی گئی حیوانیت کی داستان سنائی تھی۔ویڈیو میں ان کے جسم پر برسائے گئے ڈنڈوں کے نشانات بھی واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔ویڈیو میںمولانا محمدفیروزبتا رہے تھے کہ پولس والوں نے کس طرح ان کے بال اور داڑھی کو پکڑ کر مارا پیٹا ساتھ ہی ان کے مذہب کے نام کے ساتھ گالی گلوچ کیا۔مار پیٹ کے دوران وہ پاؤں پکڑ کر رحم کی بھیک مانگتے رہے لیکن ان کی بالکل نہیں سنی گئی۔جب مولانا محمدفیروز نے پانی مانگا تب پانی کے بدلے بھی انھیں دوبارہ بھدی بھدی گالیوں کے ساتھ زدو کوب کیا گیا۔ اس کے بعد انھیں تھانہ لاکر حاجت میں بند کر دیا گیا۔ وہاں بھی ان کے ساتھ حیوانیت کی گئی۔ ویڈیو کے مطابق تھانہ والوں نے ان سے 25 ہزار روپئے لئے ۔ اس کے بعدان کی جاں بخشی ہوسکی۔اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ظاہر ہے چاروں طرف ہنگامہ بر پا ہو گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ س کے بعد مشتعل گائوں کے ساتھ فیروز نے یکم فروری کو ایس پی آفس (مڈھوبنی) میں درخواست دی تھی۔اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس یوگیندر کمار نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ہیڈ کوارٹر) سے تحقیقات کرائی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی گئی۔ شواہد اکٹھے کر کے تحقیقاتی رپورٹ ایس پی کو سونپ دی گئی۔ تحقیقاتی رپورٹ میں اے ایس آئی مکیش کمار، حوالدار رنجیت، کانسٹیبل وکرم کمار، چوکیدار سریش پاسوان اور چوکیدار سردیپ منڈل کو قصوروار پایا گیا۔ اس کے بعد انھیں فوری اثر سے معطل کر دیا گیا ساتھ ہی انھیں پولیس لائن (مدھوبنی) میں جوائن کرنے کی ہدایت دی گئی ۔اس کے علاوہ ٹرینی ڈی ایس پی کم پولیس اسٹیشن ہیڈ گورو گپتا کو بھی پولیس لائن مدھوبنی میں جوائن کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
معاملے کے سلسلے میں مولانا محمدفیروز احمد کا کہنا ہے کہ اس دن وہ اپنی سسرال سے واپس آرہے تھے۔ وہ 4 بھائیوں اور 2 بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ان کی ایک پانچ سال کی اور دو سال کی بیٹیاں ہیں۔ وہ گاؤں کی مسجد میں ہی امامت کرتے ہیں۔طبیعت ناساز ہوئی تو آرام کے لیے سسرال چلے گئے تھے۔وہاں سے لوٹ رہے تھے کہ راستے میں پولس والوں نے مجھے روکا ۔ گھنے کہرے کی وجہ سے پہلے میں انھیں نہیں دیکھ سکا ۔ میری بائک تھوڑا آگے بڑھ گئی۔ جب میں نے بائک روکی تو وہیں سے میرے ساتھ مار پیٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو اس واقعہ کو لے کر کافی آواز اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے اس معاملے کو لیکر گورنر بہار محمد عارف خان کو ایک عرضداشت دیکر ضروری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے عرضداشت میں کہا ہے بہار میں وزیر اعلیٰ کی بے حسی کی وجہ سے ریاست میں انتظامی انارکی پھیل گئی ہے۔ بینی پٹی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور دوسرے پولس والوں نے محمد فیروز کو بغیر کسی وجہ کے اور بے دردی سے مارا پیٹا ہے۔ میں اس ظالمانہ، غیر انسانی سلوک، تشدد، ناانصافی اور استحصال کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے متاثرہ فیروز سے ملنے گزشتہ بینی پٹی، مدھوبنی گیا تھا ۔ پولیس میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ مدھوبنی میں پولس نے کھلبلی مچا دی ہے۔ پولیس جب چاہے مار دیتی ہے۔ تیجسوی یادو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری حکومت آئے یا نہ آئے اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ،لیکن ہم معاشرے میں انصاف، ظلم اور امتیاز کو کبھی برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہونے دیں گے۔ اگر کوئی مسلمانوں کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو ہم جانتے ہیں کہ ان بری نظر والوں کو ہر طرح سے درست کرنا ہے۔ یہ پولیس اور انتظامیہ والے کان کھول کر سن لیں آپ لوگ عوام کے خادم ہیں۔ آپ اپنی تنخواہ عوام کے اس پیسے سے لیتے ہیں۔ ہماری پارٹی ایسے افسران کے خلاف انسانی حقوق کمیشن سے بھی رجوع کرے گی اور ان کی سزا کو یقینی بنائے گی۔تیجسوی نے مدھوبنی ضلع میں پولیس زیادتی کے دوسرے واقعات کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں انارکی کا دور دورہ ہے۔ حالانکہ ریاست کے حکمراں اتحاد این ڈی اے کے کئی لیڈروں کا ماننا ہے کہ ریاست میں قانون کی بالا دستی ہے۔ اس معاملے میں جو بھی قصوروار ہوگا اسےبحشا نہیں جائے گا۔ معاملہ جیسے ہی ایس پی کے علم میں آیا ، اسی وقت سے کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ کچھ لوگ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف ملزمان کے خلاف اب تک کی گئی کارروائی سے عوام کے رنج و غم میں کوئی کمی نہیں دیکھی جا رہی ہے۔ سب کا یہی کہنا ہے کہ برخاستگی سے کم کی سزا قطعی مناسب نہیں ہوگی۔
***