تاثیر 27 فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
اردو میں متھلانچل کی تہذیب وثقافت کی بھرپور عکاسی: پروفیسر ندیم احمد
درربھنگہ (فضا امام)۲۷؍ فروری: عالمی ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ادب اپنے علاقائی تہذیب وتمدن کا اہم دستاویز ہوتا ہے اور ادب کے ذریعہ کسی خاص علاقے کی تہذیبی وثقافتی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔ان خیالات کا اظہار اپنے صدارتی خطبہ میں پروفیسر مشتاق احمد، پرنسپل سی ایم کالج، دربھنگہ نے کیا۔پروفیسر احمد شعبۂ اردو وفارسی کے زیر اہتمام آئی سی ایس ایس آر کے تعاون سے منعقد یک روزہ قومی سمینار بہ موضوع’’اردو زبان وادب پر متھلا کلچر کے اثرات‘‘ کے افتتاحیہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔پروفیسر احمد نے کہا کہ کوئی بھی فنکار اپنے گردو نواح سے بے خبر نہیں رہتا اور اپنے ماحول سے جو اثرات قبول کرتا ہے اسے وہ اپنی تخلیق میں نمایاں کرتا ہے۔خطۂ متھلانچل تہذیبی وثقافتی اعتبار سے ایک منفرد علاقہ ہے اور یہاں کا کلچر ملک کے دیگر حصوں سے بالکل الگ ہے اس لئے یہاں کا متھلا کلچر نہ صرف عام زندگی میںدیکھنے کو ملتا ہے بلکہ یہاں کے اد ب میں بھی اس کی جھلک موجود ہے ۔پروفیسر احمد نے کہا کہ یہ بین العلومی مطالعے کا موضوع ہے اور اس اہم موضوع پر جتنے بھی مقالہ نگار اپنی رائے پیش کریں گے اسے دستاویزی صورت میں کتابی شکل دی جائے گی تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ متھلانچل کے ادبا وشعرا نے کس طرح یہاں کے معاشرتی نظام سے فکری اور نظری سرمایے حاصل کئے ہیں اور اسے اپنی تخلیق میں جگہ دی ہے۔پروفیسر احمد نے کہا کہ انیسویں صدی کے آغاز سے ہی مغر ب میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ ادب میں کسی خاص علاقے کی تہذیب کس طرح پرورش پاتی ہے ۔ انہو ںنے ایڈورڈ ایلسورتھ روس کی کتاب ’’سوشل کنٹرول ‘‘ مطبوعہ 1901ء اور سفر نامہ ابن بطوطہ کے ساتھ ساتھ گارسادتاسی، سید صباح الدین عبدالرحمن، چارلس بوکوسکی وغیرہ کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ اردو زبان وادب طرزِ فکرواحساس کی بنیاد پر ثقافتی تنوع کو مستحکم کرتی ہے اور متھلانچل کے تہذیبی وراثت کی امین ہے ۔اپنے کلیدی خطبے میں اردو کے نامور ادیب پروفیسر ڈاکٹر ندیم احمد ، جامعہ ملّیہ اسلامیہ نے کہا کہ اردو میں متھلانچل کی تہذیب وثقافت کی بھرپور عکاسی ہے اور اس علاقے کے ادبا اور شعرا نے یہاں کی تہذیبی وراثت کو اپنی فکر ونظر کا حصہ بنایا ہے ۔ انہو ںنے مختلف شعرا اور ادبا کے حوالے سے گفتگو کی اور سمینار کے موضوع کی تعریف کی ۔پروفیسر محمد جوہر علی ، شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ نے اپنے پر مغز خطاب میں کہا کہ متھلا کلچر نے اردو ادب کو تہذیبی شناخت دی ہے اور یہ سمینار ایک نئے موضوع پر ہو رہاہے جس سے تمام اردو دنیا کو استفادہ کا موقع ملے گا اور نئی روشنی حاصل ہو سکے گی ۔ انہو ںنے لسانی اور تہذیبی رشتوں پر تفصیلی گفتگو کی اور متھلانچل کی تہذیب کی عکاسی کی مثالوں سے یہ ثابت کیا کہ متھلانچل کی جیتی جاگتی تصویر اردو ادب میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ پروفیسر محمد کاظم، شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی نے متھلانچل کے مخصوص کلچر پر گفتگو کی اور اس کلچر نے کس طرح اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کو متاثر کیا ہے اس پر بھرپور روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے افسانہ نگار سہیل عظیم آبادی، شین مظفرپوری، کوثر مظہری وغیرہ کے یہاں متھلانچل کی بولی اور یہاں کے کلچر کے اثرات نمایاں ہیں۔آغاز میں ڈاکٹر خالد انجم عثمانی نے سمینار کے موضوع کی علمی وادبی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی اور تعارفی کلمات کے ساتھ ساتھ تمام مہمانوں اور شرکا کا خیر مقدم کیا ۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر فیضان حیدر نے بحسن وخوبی انجام دیا اور اظہارِ تشکر شعبہ اردو کی استاد ڈاکٹر شبنم نے پیش کیا۔ افتتاحی اجلاس کے علاوہ دو تکنیکی اجلاس منعقد ہوئے۔ پہلے اجلاس میں پروفیسر ندیم احمد ، پروفیسر محمد کاظم ، پروفیسر محمد علی جوہر، پروفیسر آفتاب اشرف،پروفیسر محمد افتخار احمد، ڈاکٹر شہنواز عالم، ڈاکٹر قرۃ العین، ڈاکٹر مطیع الرحمن، ڈاکٹر عبدالحی، ڈاکٹر شبنم وغیرہ نے اپنے مقالات پیش کئے۔ دوسرے اجلاس میں ڈاکٹر نسرین ثریا، ڈاکٹر مسرور ہادی، ڈاکٹر مجاہد اسلام، ڈاکٹر علاء الدین خاں، ڈاکٹر محمد موصوف رضا، ڈاکٹر جسیم الدین، ڈاکٹر منور راہی، محمد سمیع الدین خلیق، ڈاکٹر فیضان حیدر وغیرہ نے اپنے مقالات پیش کئے ۔اس موقع پر اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعروادیب پروفیسر شاکر خلیق نے سمینار کے موضوع کی تاریخی وعلمی اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور متھلانچل کی ثقافتی شناخت واردو زبان وادب کے رشتے پر گفتگو کی ۔ واضح ہو کہ پروفیسر خلیق برسوں سے متھلانچل کی تہذیبی شناخت اور اردو کے رشتے پر مضامین ومقالات لکھتے رہے ہیں جس کا ذکر بیشتر مقالہ نگاروں نے کیا۔ سمینار میں شہر دربھنگہ اور گردو نواح کے کالجوں کے اساتذہ وریسرچ اسکالر بڑی تعداد میں شامل ہوئے ان میں ڈاکٹر ڈاکٹر نجیب اختر،محمد بدرالدین، ڈاکٹر زیبا پروین، ڈاکٹرایمن عبید، ڈاکٹر رحمت اللہ افضل وغیرہ شامل ہیں ۔ اس موقع پر شرکائے سمینار کے ذریعہ علی گڑھ میگزین کا بھی رسمِ اجرا عمل میں آیا۔واضح ہو کہ سمینار کے مقالات بہت جلد کتابی صورت میں شائع ہوں گے۔