دوحہ میں جشن فرحت احساس اور عالمی مشاعرہ 2025

 

کاروان اردو قطر کے زیر اہتمام کام یاب انعقاد

دوحہ/31 جنوری 2025، رات آٹھ بجے کاروان اردو قطر نے ڈی پی ایس ایم آئی ایس آڈیٹوریم، الوکرہ، قطر میں اپنا چھٹا عالمی مشاعرہ منعقد کیا، یہ مشاعرہ جشن فرحت احساس کے نام سے معنون تھا۔
فرحت احساس کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے، وہ  مابعد جدید شاعروں میں بہت اہم اور نمایاں ہیں۔ انہوں نے اردو اور فارسی زبانوں کی کلاسیکی شعری روایت کو  اپنے زمانے کے مضامین اور اسلوب اظہار سے  ہم آمیز کر کے ایک ایسا شعری بیانیہ ترتیب دیا ہے، جس میں  کلاسیکی جمالیات کی روشنی سے استفادہ کرتے ہوئے  موجودہ دور کی انسانی صورت حال اور اس کے  پیچیدہ تجربات کا  فنی اظہار ممکن ہوا ہے۔ فرحت احساس کے شعری مضامین میں سیاسی جبر، اقتصادی استحصال ، اخلاقی وروحانی زوال اور جمالیاتی نابینائی کا  دقیق اور گہرا احاطہ کرنے والا ایک ایسا اسلوب بیان نظر آتا ہے جو بہ یک وقت سہل بھی ہے اور مشکل بھی،البتہ یہی سہولت اور مشکل پسندی انہیں ان کے معاصرین کے درمیان ایک منفرد  مقام اور امتیازی شان  بھی عطا کرتی ہے۔
فرحت احساس ایک صاحب اسلوب نثر نگار بھی ہیں۔ انھوں نے دہلی سے شائع ہونے والے شمالی ہند کے سب سے بڑے اردور وز نامہ  “قومی آواز”   سے صحافتی وابستگی کے دوران تقریباً 500 کالم لکھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے ادبی اور تنقیدی مضامین بھی سپرد قلم کیے ہیں۔
2003 میں ہندوستان کے سب سے بڑے ادبی ادارہ ساہتیہ اکادمی نے ان کا مجموعہ کلام  ” میں رونا چاہتا ہوں”  شائع کیا تھا۔ 2011 میں ان کی کتاب ” شاعری نہیں ہے یہ”  منظر عام پر آئی۔ 2017 میں انہوں نے اپنی کتاب ” قشقہ کھینچ دیر میں بیٹھا”  دیوناگری رسم الخط میں شائع کی۔


فرحت احساس 25 دسمبر 1950  عیسوی کو ہندوستان کے ایک تاریخی  شہر بہرائچ (اتر پردیش) میں پیدا ہوے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی سے انگریزی اور اسلامیات کے مضامین  میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1979 میں دہلی سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ  “ہجوم “کے معاون مدیر کے طور پر کام کیا۔ 1987 میں اردو روزنامہ “قومی آواز”  سے منسلک ہوئے اور کئی برس تک اس کے سنڈے ایڈیشن کی ادارت کی ۔ 1998 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی سے منسلک ہوے اور وہاں سے شائع ہونے والے دو تحقیقی جرائد   ” اسلام اینڈ ماڈرن ایج ”   اور  “اسلام اور عصر جدید”   کی ادارت سے وابستہ رہے۔ اسی دوران انہوں نے آل انڈیا ریڈیو اور بی بی سی کی اردو سروس سے حالات حاضرہ پر گفتگو اور تجزیے بھی نشر کیے۔ فرحت احساس اپنی نظریاتی وسعت اور تجربات کی انفرادیت کے لیے معروف ہیں۔ اردو، ہندی، برج، اودھی اور دیگر ہندوستانی زبانوں کے علاوہ انگریزی اور مغربی زبانوں کے ادب سے گہری دلچسپی ہے۔ ہندوستانی اور مغربی فلسفہ سے بھی گہرا شغف ہے۔   اس وقت آپ  ریختہ فاؤنڈیشن میں چیف ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔
صاحب جشن جناب فرحت احساس کے علاوہ اس عظیم الشان عالمی مشاعرہ میں ہندوستان سے جناب منصور عثمانی، جناب طاہر فراز، محترمہ سپنا مولچندانی، جناب انل دوبے، اور جناب طارق فیض تشریف لائے تھے، جبکہ پاکستان کی نمائندگی جناب صبا جاوید اور جناب علی زریون  نے فرمائی ، قطر سے مقامی شعرا کی نمائندگی جناب عتیق انظر، جناب راشد عالم راشد اور  جناب زوارحسین زائر  کے حصہ میں آئی ۔


تقریبا ساڑھے آٹھ بجے شام سے شروع ہو کر رات ایک بجے تک جاری رہنے والی اس خوبصورت اور با وقار تقریب کی صدارت صاحب جشن جناب فرحت احساس نے فرمائی،  تقریب  کے مہمان خصوصی قطر کے معروف بزنس مین اور سماجی کارکن جناب ثناء اللہ عبد الرحمن  اور مہمان اعزازی اتلیام انفراٹیک کمپنی ، انڈیا کے بانی شری راجیش کمار مشرا جی تھے۔ سامعین کی صفوں میں قطر کے اردو دوستوں اور ادب نوازوں کی ایک بڑی تعداد جلوہ افروز تھی جن میں شعرا اور فنکاروں کے علاوہ  انڈین کمیونٹی کے کامیاب بزنس مین، سماجی خدمت گار اور ادبی و ثقافتی تنظیموں کے عہدیدار اور ذمہ دار بطور خاص تشریف لائے تھے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز جناب محمد فاروق آسامی ندوی نے قرآن کریم کی تلاوت اور ترجمہ سے فرمایا ،  جس کے بعد کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب راشد عالم راشد کی درخواست پر سبھی حاضرین نے مرحوم حسن عبد الکریم چوگلے کی یاد میں د منٹ کے لیے خاموش  کھڑے ہو کر  ان کے لیے دعا ئے مغفرت  کی ۔
اس تعزیتی کارروائی کے بعد کاروان اردو قطر کے چیئرمین، قطر کے معروف بزنس مین اور سماجی خدمت گار جناب عظیم عباس نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، اپنی تقریر میں انہوں نے صاحب جشن، شعرا کرام، مہمانان گرامی، اسپانسرز، اور سامعین کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کی شب ہمارے لیے بے حد اہم، تاریخی اور قیمتی ہے کہ ہمیں فرحت احساس جیسے عظیم شاعر کو روبرو سننے کا موقع ملے گا، عظیم عباس صاحب نے مزید فرمایا کہ اردو شعر وادب اور صحافت کے میدانوں میں فرحت احساس کی خدمات بے حد قدر و قیمت کی حامل ہیں جس کا ادراک کرتے ہوئے کاروان اردو قطر نے ان کی خدمت میں حاصل حیات ایوارڈ پیش کرنے کا فیصلہ  کیاہے۔ عظیم عباس صاحب نے اپنی تقریر میں مرحوم حسن عبد الکریم چوگلے کو بھی یاد کیا، مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے فرمایا کہ میں نے مرحوم حسن بھائی کے ساتھ ایک عمر گزاری ہے، بزنس، سماجی خدمات اور ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں شانہ بہ شانہ ان کے ساتھ کام کیا ہے اور سچ یہ ہے کہ آگے کا سفر ان کے بغیر بہت مشکل نظر آرہا ہے، لیکن تقدیر الہٰی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا چارہ نہیں، اللہ تعالیٰ مرحوم حسن بھائی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کی فیملی کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ بخشے۔
استقبالیہ تقریر کے بعد ڈاکٹر نشاط احمد صدیقی نے صاحب جشن اور  صدر مشاعرہ  جناب فرحت احساس کی شخصیت اور خدمات کے بارہ میں ایک مختصر تعارف حاضرین کے سامنے پیش کیا جس کے بعد مہمان خصوصی جناب ثناء اللہ کے دست مبارک سے صاحب جشن کی خدمت میں حاصل حیات ایوارڈ اور ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کیا گیا۔
بعد ازاں کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب راشد عالم راشد نے صاحب جشن کو اپنے خیالات اور تاثرات کے اظہار کی دعوت دی، صاحب جشن اور صدر مشاعرہ  جناب فرحت احساس نے اپنی تاثراتی گفتگو میں کاروان اردو قطر کے چیئرمین، بانی صدر، نائب صدر، سکریٹری جنرل اور کاروان کی پوری انتظامیہ کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوے فرمایا کہ میں اس اعزاز کا مستحق تو نہیں ہوں اور جب پہلی بار جناب عتیق انظر نے مجھے اس جشن کے بارے میں بتایا تھا اس وقت بھی میں نے انکار ہی کیا تھا، البتہ رفتہ رفتہ ان کا اصرار میرے انکار پر غالب آگیا اور اس طرح آپ کے سامنے حاضری کا موقع مل رہا ہے۔ جناب فرحت احساس نے مابعد جدید دور میں اور بالخصوص ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمنٹ کے بالمقابل شاعری کے فن اور مشاعروں کی تہذیب کو درپیش چیلینجز کا ذکر کرتے ہوے فرمایا کہ جب ہماری نسل کے لوگوں نے شعر کہنا شروع کیا تھا اس وقت شعرا کے درمیان ایک تقسیم بڑی واضح تھی اور وہ یہ تھی کہ عوامی شاعر مشاعروں کے ذریعےاپنے فن اور کلام کی تشہیر کرتے تھے جبکہ غیر عوامی شعرا رسالوں میں چھپتے تھے، لیکن سوشل میڈیا آنے کے بعد یہ تقسیم ختم ہوگئی ہے اور اب مشاعروں کے کم از کم معیار کو باقی رکھنے کے لیے بھی دیگر متبادل تدابیر سوچنے کی ضرورت ہے، مستقبل قریب میں آرٹیفیشیل انٹلیجنس کی آمد سے ان چیلینجز کی سنگینی مزید بڑھنے والی ہے۔
صاحب جشن کی نہایت مفید اور پر مغز تقریر کے بعد ان کے ہی دست مبارک سے کاروان کے یادگاری مجلہ کا اجرا عمل میں آیا، یہ مجلہ کاروان اردو قطر اور اس کی سرگرمیوں کے مختصر تعارف، صاحب جشن کے گوشے اور مشاعرے میں شامل شعرا کے کلام پر مشتمل ہے۔
یہاں تک تقریب کی کامیاب نظامت کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری اور دوحہ کے معروف شاعر جناب راشد عالم راشد نے کی، مجلہ کی رسم رونمائی کے بعد انہوں نے کاروان اردو قطر کے بانی صدر جناب عتیق انظر کو مائک پر بلایا تاکہ وہ صدر مشاعرہ اور صاحب جشن کا شکریہ ادا کریں اور نظامت کی مسند ممتاز  شاعر اور منفرد ناظم مشاعرہ جناب منصور عثمانی کے حوالہ کریں۔ عتیق انظر صاحب نے جناب منصور عثمانی کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ میں یہ بات پورے اعتماد اور ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت بر صغیر میں جناب منصور عثمانی سے بہتر اور کہنہ مشق ناظم مشاعرہ موجود نہیں ہے، ان کی نظامت، مشاعرے کی کام یابی کی ضمانت ہے، یہ ہماری اور قطر کے باذوق ادب دوستوں کی خوش قسمتی ہے کہ اس مشاعرہ کی نظامت جناب منصور عثمانی فرمائیں گے۔
جناب منصور عثمانی نے نظامت کی مسند سنبھالی اور  کاروان اردو قطر کے چیئرمین عظیم عباس، بانی صدر عتیق انظر، نائب صدر شاہد خان، سکریٹری جنرل راشد عالم راشد، اور کاروان کے تمام ارکان وکارکنان کا شکریہ ادا کیا، بطور خاص عتیق انظر صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عتیق انظر صاحب ایک منفرد لب ولہجہ کے معتبر شاعر ہیں، لیکن جب یہ مشاعرہ منعقد ہوتا ہے تو ان کا شاعر پیچھے چلا جاتا ہے اور کاروان کا صدر سامنے آ جاتا ہے، اس کے لیے ہم ان کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ناظم مشاعرہ جناب منصور عثمانی نے صاحب جشن اور صدر مشاعرہ جناب فرحت احساس کی تقریر کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ بارہ پندرہ منٹ کی اس تقریر میں موصوف نے فن شاعری، مشاعروں کی تہذیب اور عہد مابعد جدید کے ادبی، فنی اور سماجی چیلنجز کے تعلق سے جو علم ہم تک منتقل کیا وہ بلاشبہ دس بارہ کتابوں کا عطر ہے۔
بعد ازاں ناظم مشاعرہ جناب منصور عثمانی نے مشاعرہ کی  باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیااور اس شعر کے ساتھ مشاعرہ کے پہلے شاعر  “طارق فیض” کو  سامعین کے سامنے پیش کیا:
فکر غالب حسن میرمیری کماں کا پہلا تیر
طارق فیض سے شروع ہو کر   مشاعرہ کی شمع جب فرحت احساس تک  پہونچی تو رات کا ایک بج چکا تھا، قابل ذکر پہلو یہ  ہے کہ تین گھنٹوں کے اس دورانیہ میں  گیارہ شاعروں نے اپنا کلام سنایا، ان میں نوخیز شعرا بھی تھے، مبتدی اور متوسط  سطح کے شعرا بھی ، اور فرحت احساس، جاوید صبا اور منصور عثمانی جیسے بزرگ، کہنہ مشق اور استاد شعرا بھی ، لیکن شروع سے آخر تک سامعین کی دلچسپی مشاعرہ  میں قائم رہی اور کسی بھی لمحہ ڈائس سے ان کا رابطہ کمزور نہیں ہوا جوکسی بھی کامیاب مشاعرے کے لیے ضروری ہے۔ مشاعرے  کی اس تاریخی کامیابی میں جہاں ایک طرف بہت بڑا حصہ ناظم مشاعرہ جناب منصور عثمانی کا رہا، وہیں دوسری طرف دوحہ کے باذوق سامعین کو بھی اس کامیابی کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔  مندرجہ ذیل سطور میں  کچھ منتخب اشعار بطور نمونہ پیش  کیے جاتے ہیں تاکہ سند رہے اور قارئین بھی کسی حد تک مشاعرے کی  اس سحر انگیزفضا کا حصہ بن سکیں۔
فرحت احساس:

صحرا کے سنگین سفر میں آب رسانی کم نہ پڑے
ساری آنکھیں بھر کر رکھنا دیکھو پانی کم نہ پڑے
ذہن مسلسل قصے سوچیں ہونٹھ مسلسل ذکر کریں
صبح تلک زندہ رہنا ہے،  کہیں کہانی کم نہ پڑے
عشق نے سونپا ہے مجھ کو اک صحرا کی تعمیر کا کام
اور ہدایت کی ہے ذرہ بھر ویرانی کم نہ پڑے
زمیں نے لفظ اگایا نہیں بہت دن سے
کچھ آسماں سے بھی آیا نہیں بہت دن سے
یہ شہر وہ ہے کہ کوئی خوشی تو کیا دیتا
کسی نے دل بھی دکھایا نہیں بہت دن سے
ہم اپنی مملکت درد میں اکیلے ہیں
ہماری کوئی رعایا نہیں بہت دن سے
جاوید صبا:
ترا نیاز مند ہوں نیاز کے بغیر بھی
دلیل کے بغیر بھی جواز کے بغیر بھی
مثال کیا کہ سر بسر ترا وجود شاعری
کلام کے بغیر بھی بیاض کے بغیر بھی
گزر رہی تھی زندگی گزر رہی ہے زندگی
نشیب کے بغیر بھی فراز کے بغیر بھی
تری نگاہ خود نگر دلوں کو مات کر گئی
لڑائی کے بغیر بھی محاذ کے بغیر بھی
روا ہے عشق میں روا مگر یہ سجدۂ وفا
اذان کے بغیر بھی نماز کے بغیر بھی
منصور عثمانی:
ہونٹوں پہ سب کے جام کسی دوسرے کا ہے
یہ کیسا انتظام ترے میکدے کا ہے
میں نے تو زندگی کو ترے نام کر دیا
اب مجھ کو انتظار ترے فیصلے کا ہے
دیکھے ہے روز تجھ کو نئے رنگ روپ میں
کیسا بھلا نصیب ترے آئینے کا ہے
طاہر فراز:
اب کے برس ہونٹوں سے مرے تشنہ لبی بھی ختم ہوئی
تجھ سے ملنے کی اے دریا مجبوری بھی ختم ہوئی
کیسا پیار ، کہاں کی الفت ، عشق کی بات تو جانے دو
میرے لیے اب اس کے دل سے ہمدردی بھی ختم ہوئی
شجر ہجر ہے تازہ تازہ آنکھوں کی برساتوں سے
برگ وصل کی کیا پوچھو ہو اس کی نمی بھی ختم ہوئی
شاید زندہ رہنے کے آداب ہیں پیاس اور در بدری
میں نے جب ایسے سوچا تو مایوسی بھی ختم ہوئی
عتیق انظر:
دل کے آنگن میں کوئی یاد ستارہ چمکا
میری بے نور سی آنکھوں میں اجالا چمکا
شام کے ساتھ یہ دل ڈوب رہا تھا لیکن
یک بیک جھیل کے اس پار کنارا چمکا
ہر گلی شہر کی پھولوں سے سجی میرے لیے
ہر دریچے میں کوئی چاند سا چہرہ چمکا
کتنے تاروں نے لہو نذر کیا ہے اپنا
تب کہیں رات کے سینے سے سویرا چمکا
علی زریون:
پہلے پہل لڑیں گے تمسخر اڑائیں گے
جب عشق دیکھ لیں گے تو سر پر بٹھائیں گے
تو تو پھر اپنی جان ہے تیرا تو ذکر کیا
ہم تیرے دوستوں کے بھی نخرے اٹھائیں گے
غالبؔ نے عشق کو جو دماغی خلل کہا
چھوڑیں یہ رمز آپ نہیں جان پائیں گے
قبلہ کبھی تو تازہ سخن بھی کریں عطا
یہ چار پانچ غزلیں ہی کب تک سنائیں گے
آگے تو آنے دی جیے رستہ تو چھوڑیے
ہم کون ہیں یہ سامنے آ کر بتائیں گے
سپنا مولچندانی:
جب تلک وہ نظر نہیں آتا
درد دل کا ابھر نہیں آتا
جس کے حصہ میں ہوں سفر نامے
اس کے حصہ میں گھر نہیں آتا
یہ محبت کی ایک خوبی ہے
عیب کوئی نظر نہیں آتا
کتنا دشوار ہے سفر میرا
جس میں کوئی شجر نہیں آتا
زوار حسین زائر:
میں نے اس کو اور میرے دل نے سمجھایا مجھے
تب کہیں جا کر میاں منطق سمجھ آیا مجھے
عشق کا آسیب ہے دیوار کے دونوں طرف
اپنے جیسا مل گیا ہے ایک ہمسایہ مجھے
کوئی آیا ہی نہیں ، آہٹ کہاں سے آئے گی
میں نے بتلایا مجھے اور میں نے سمجھایا مجھے
راشد عالم راشد:
حدیث دل سنانا تھا ٹھہر جاتے تو اچھا تھا
ہمارے خواب دل کے بھی سنور جاتے تو اچھا تھا
ہم ان کی خامشی کو بس رضامندی سمجھ بیٹھے
گزارش پر وہ پہلے ہی مکر جاتے تو اچھا تھا
خرد نے دشت کی دشواریوں پر ضوفشانی کی
جنوں میں ہم اگر حد سے گزر جاتے تو اچھا تھا
طارق فیض:
ذہن و دل میں جانے کیا کیا رکھا ہے
ان دونوں کو کس نے الجھا رکھا ہے
دل رہتا ہے ایسے میرے سینے میں
جیسے اس کو زندہ دفنا رکھا ہے
میں نے تیری یادوں کو زندہ رکھا
اور یادوں نے مجھ کو زندہ رکھاہے
ڈاکٹر نشاط صدیقی
(میڈیا سکریٹری کاروان اردو قطر)