تاثیر 28 فروری ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن
ارریہ : مشتاق احمد صدیقی ) ہونٹوں سے ہنسی کا چھِن جانا عہدحاضر کا سب سے بڑا المیہ ہے۔معاشرے کی سنجیدگی اور ہنسی دونوں مصنوعی ہوگئی ہیں۔ ہنسی کی صلاحیت خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ ہنسی جب ادبی اظہار کے قالب میں نمو پاتی ہے تو مزاح پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کی ناہمواریاں طنز و مزاح کی بنیادی محرک ہیں۔طنز و مزاح کا بنیادی مقصد معاشرے کی تطہیر ہے۔ طنز بظاہر تخریبی مگر بہ باطن تعمیری ہوتا ہے۔ مضحک صورت واقعہ ، مضحک کردار، تحریف، قول محال اور مبالغہ آمیز بیان طنز و مزاح کے اہم حربے ہیں، ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ’’طنز و مزاح کی مبادیات‘‘ کے موضوع پرپروفیسر مظہر احمد(ذاکر حسین کالج شبینہ) نے توسیعی خطبے میں کیا۔ صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر کوثر مظہری نے سیپلنگ سے مہمان مقرر کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام سالانہ یادگاری اور توسیعی خطبے کی ایک زرّیں روایت رہی ہے، چنانچہ اس ہفتے مستقل ممتاز ادیب اور دانشوروں کی آمد اور ان کے وقیع خطبات کاسلسلہ جاری ہے۔ صدارتی کلمات میں پروفیسر شہزاد انجم نے مہمان مقرر کی علمیت اور خطبے کی افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس امر پر اظہار افسوس کیا کہ بہترین خلاّقی کا مظہر ہونے کے باوجود طنز و مزاح کے سرمایے کو سنجیدہ مطالعے کا مستحق نہیں سمجھا جاتا ہے۔ توسیعی خطبے کے کنوینر ڈاکٹر شاہ عالم نے پروفیسر مظہر احمد اور خطبے کے موضوع کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ پروگرام کا آغاز محمد اسجد کی تلاوت اور اختتام ڈاکٹر ثاقب عمران کے اظہار تشکر پر ہوا۔ اس موقع پر پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر عمران احمد عندلیب، پروفیسر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر امتیاز وحید،ڈاکٹر مخمور صدری، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹرحنبل رضااور محمد عارف کے علاوہ شعبے کے ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات موجود تھے۔