مسلمان ارادہ کرلیں تو سماج میں انقلاب برپا ہو جائے گا- :مفتی محمد اطہر القاسمی۔

تاثیر 09  مارچ ۲۰۲۵:- ایس -ایم- حسن

ارریہ :- ( مشتاق احمد صدیقی  گذشتہ کل شہر ارریہ کے اسلام نگر میں الحاج منظر الیوسف صاحب (لائٹ ہاؤس وکاس مارکیٹ ارریہ) کے دولت کدہ پر رام پور کدرکٹی کا باشندہ سرپنچ وعظ الدین کے فرزند ارجمند ماسٹر محمد وقار ض ٹیچر بارا پلس ٹو ہائی اسکول فاربس گنج کا نکاح مسنونہ ہرپور کے باشندے فیاض عالم صاحب کی چھوٹی دختر نیک اختر کے ساتھ مہر فاطمی کے ساتھ ہوا۔ عقد مناکحت کی اس مختصر سی تقریب میں طرفین کے اہل خانہ کے علاوہ ہرپور اور رام پور کدرکٹی کے معززین کی ایک مختصر سی جماعت موجود تھی۔ خطبہ نکاح کے بعد شرکاء مجلس سے مختصر اور نہایت جامع گفتگو کرتے ہوئے قاضی نکاح مفتی محمد اطہر القاسمی نائب صدر جمعیت علماء بہار و جنرل سکریٹری جمعیت علماء ارریہ نے کہاکہ شادیوں کے مختلف رسم و رواج، روپے پیسے کے مطالبے اور جہیزی لین دین کے موجودہ ماحول میں یہ ایک انوکھی شادی ہورہی ہے، جس میں سنت و شریعت اور سادگی کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ مفتی صاحب نے کہاکہ چند قریبی رشتےداروں کی موجودگی میں بغیر کسی ٹیپ ٹاپ، تام جھام، بھوج بھات، بغیرکسی بارات اور شادیوں میں برتی جانے والی موجودہ رسومات و بدعات اور خرافات و منکرات سے پاک یہ رشتہ قابل مبارکباد بھی ہے اور دولہا و دلہن کے ساتھ ان دونوں کے اہل خانہ اور جملہ شرکاء مجلس کے لئے بھی یہ باعثِ خیر و برکت تو ہے ہی، ساتھ ہی ہمارے سماج و معاشرے کے لئے بھی ایک نمونہ اور مثال ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا سماج اگر عزم و ارادہ کرلے تو مہنگی شادیوں کے رسم و رواج کی بندشوں کو توڑ کر سنت و شریعت کے مطابق نہایت آسان انداز میں اپنے بال بچوں اور رشتےداروں کی شادیاں کی جا سکتی ہیں مفتی صاحب نے دوٹوک انداز میں شرکاء مجلس سے کہاکہ یہاں جتنے لوگ تشریف فرما ہیں سب کے سب اصحاب ثروت کے ساتھ ساتھ اہل علم و دانش بھی ہیں، بد قسمتی کی بات ہے کہ آج یہی طبقہ شادیوں کو انتہائی مہنگا بنا چکا ہے، جن کے پاس جتنی ڈگریاں، جتنی دولت، جتنے عہدے اور جتنے اثر و رسوخ ہیں وہ اسی قدر شادیوں میں لین دین ،مانگ مطالبہ اور فضولیات و خرافات کا ارتکاب کررہاہے اور ایک ایک شادی میں پچیس پچیس اور پچاس پچاس لاکھ روپے خرچ کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مسلم سماج سخت اضطراب و انتشار کا شکار ہوچکاہے، حتیٰ کہ نکاح مشکل ترین امر بن چکا ہے اور متوسط اور غریب خاندانوں کی جوان بیٹیاں یا تو والدین کے گھروں کی چوکھٹوں پر بن بیاہی بوڑھی ہو ہورہی ہیں یا پھر غیروں کے ہاتھوں اپنی عزت و آبرو کے ساتھ اپنے دین و ایمان کا سودا کررہی ہیں،
لیکن اسی سماجی لعنت کے درمیان انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ماسٹر محمد وقار صاحب اور ان کے والدین کے ساتھ ان کے تمام رشتےداروں نے ان سب خرافات کو توڑتے ہوئے سماج کےسامنے ایک خوبصورت اور عملی مثال پیش کیا ہے جس کے لئے یہ تمام حضرات مبارک باد کے قابل ہیں ۔مفتی صاحب نے موجود شرکاء سے کہاکہ آپ ماہ رمضان المبارک کی خوبصورت ساعتوں میں اس آسان و مسنون نکاح کے گواہ بن رہے ہیں اس لئے یہاں سے عزم لےکر جائیں کہ اپنے گھرانے کا نکاح اسی انداز میں کریں گے! ان شاءاللہ۔ پھر نکاح کے بعد مفتی صاحب نے زوجین کے لئے اور جمعیت علماء ارریہ کی اس تحریک کی کامیابی اور ملک و ملت کی سلامتی کے لئے دعائیں کی، واضح رہے کہ نکاح کے بعد جملہ شرکاء کو دولہے کی طرف سے بطورِ ہدیہ تسبیح ،ٹوپی ،کھجور  اور عطر پیش کیا گیا جبکہ افطار لڑکی والوں کے یہاں کرنے کے بجائے اپنے گھر پر کرانے کا اہتمام کیا گیا، یوں نکاح کے بعد لڑکی والے اپنے مہمانوں کے ساتھ اپنے گھر اور لڑکے والے اپنے مہمانوں کے ساتھ اپنے گھر لوٹ گئے۔ اس باوقار مجلس نکاح میں سے سرپنچ وعظ الدین، نیاز الدین، فیروز عالم، پروفیسر شعیب عالم، فیاض عالم، مکھیا آفتاب عالم، سابق مکھیا شہزاد عالم، ڈاکٹر واصف شہزاد، ڈاکٹر رمیض رضا، ڈاکٹر طارق، ایڈوکیٹ عدنان، ماسٹر محمد احسن، ماسٹر سجاد نرالا، ماسٹر محمد عمران، عمران نیازی، بابو کاشف، ماسٹر اقیم الدین، قاری عبد الرحمن، شمس قمر بابل، بابو منٹو اور حافظ مسعد وغیرہ موجود تھے۔